مذہبی ہم آہنگی

In ادب
January 06, 2021

مذہبی ہم آہنگی
یہ دنیا مختلف اقوام کے رنگارنگ گل دستے کی مانند ہے ان اقوام کے مذہب جدا طرز زندگی الگ اور رسم و رواج مختلف ہیں۔ان کی جداگانہ حیثیت انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔اس گلدستے کی اصل خوشبو برابری کے اصولوں پر ہے۔اگر ہم اپنے مذہب رسم و رواج اور طرز زندگی پر اپنی مرضی اور آزادی سے عمل کریں اور دوسروں کو بھی خوش دلی سے ہی ایسا کرنے دیں تو یہ مساوات اور ہم آہنگی کی بہترین مثال ہے۔
ہم آہنگی کا مطلب ہے ایک جیسی رائے یا سوچ رکھنا۔اس وسیع پیمانے پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ سب کو برابر سمجھنا۔دنیا میں بے شمار مذہب ہیں اور ان کی تعلیمات بھی جدا جدا ہیں ہمیں یہ بات اچھی طرح سے سمجھنی چاہیے۔سب کو اپنے مذہب سے بہت پیار ہوتا ہے۔اگر ہم جتنا اپنے مذہب مذہبی کتابوں اور مذہبی اصولوں کو قابل عزت سمجھتے ہیں۔اتنا ہی دوسرے کے مذہب کو عزت دے تو یہ مذہبی ہم آہنگی کہلاتا ہے۔
آج کے دور میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں کی ایک سے زائد مذہب کے لوگ رہائش پذیر نہ ہوں۔
ایسی صورتحال میں تحمل برداشت اور رواداری کے اصولوں کو اپناکر پر سکون زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔
دنیا کے تمام الہامی مذہب ہمیں مذہبی ہم آہنگی اور مل جل کر رہنے کا درس دیتے ہیں۔اسلام ہو عیسائیت ہو یا یہودیت تمام مذاہب نہ صرف دوسرے مذاہب کا احترام کرتے ہیں بلکہ ان کے پیروکاروں کو ان کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔دنیا میں الہامی مذہب کے علاوہ دوسرے مذہب بھی موجود ہیں۔جیسے سکھ مت، ہندومت اور بدھ مت وغیرہ۔مجموعی طور پر ان سب کا طرز عمل اور رویہ دوسرے مذاہب سے برابری پر ہے۔تمام مذاہب ہمیں لڑائی اور جھگڑے سے دور رکھ کر اپنے اپنے مذہب کے مطابق معاشرتی زندگی گزارنے کا موقع دیتے ہیں۔ایک مسلمان ہونے کے ناطے تمام مذاہب کا احترام کرنا ہمارا دینی فرض ہے۔
جب ہم دوسرے مذاہب اور ان کے رسم و رواج کا احترام کرتے ہیں تو دوسروں کو بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اسلام ہمیں مساوات اور بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے۔لہذا ہمیں بھی اسلام کا احترام کرنا چاہیے۔ جب ہم خود دوسروں کو مثال بن کر دکھائیں گے تو یقینا ان کا مثبت ردعمل ہی ہوگا۔
مذہبی ہم آہنگی کی مثال اسلام کے آغاز سے ہی ثابت ہوتی ہے مسلمانوں نے اقتدار میں آنے کے باوجود نہ تو کسی غیر مسلم کو اس کے پسندیدہ مذہب پر عمل کرنے سے روکا اور نہ ہی کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان کیا گیا۔
ہر مذہب کے پیروکاروں کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی تھی کیونکہ اسلام مذہبی ہم آہنگی پر مکمل یقین رکھتا ہے۔جب ہم اپنے اپنے مذہب کی حقیقی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں تو ہمیں صحیح اور غلط کی تمیز نہیں رہتی اور ہم جذبات کی رو میں بہہ کر لڑائی مارکٹائی پر اتر آتے ہیں۔یہ بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنے مذہب اور اپنے فرقے کو درست سمجھے لیکن دوسرے مذاہب کی توہین کریں یا ان کے پیروکاروں کا مذاق اڑائیں۔یہ کام عام طور پر چند لوگ ہی کرتے ہیں لیکن اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ہر عمل کا ردعمل ضرور ہوتا ہے یوں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوجاتے ہیں اور بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
اتنے مذاہب کے جھرمٹ میں ہمارا دین چاند کی مانند روشن ہے۔ہمیں اپنے مذہب کو دوسروں کے لیے مثال بنانا چاہیے تک اسلام کی سچائی سب پر واضح ہو سکے۔مذہبی برداشت اور ہم آہنگی کے ذریعے دنیا کے تمام لوگ ایک پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں اور اپنی مرضی اور بھرپور آزادی سے اپنی مذہبی اقدار پر عمل کر سکتے ہیں یہی شرف انسانیت ہے۔