410 views 0 secs 0 comments

فاتحِ اُندلس۔۔۔ایک مختصر تعارف

In اسلام
January 08, 2021

تعارف

طارق بِن زیاد بِن عبداللہ اسلام کا وہ بہادر جرنیل ہے جس نے بارہ ہزار کا لشکر لے کر اُندلس فتح کیا اور اس میں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ جس نے آگے چل کر یورپ کی سیاسی, معاشی, معاشرتی, اقتصادی اور ثقافتی زندگی میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ طارق بِن زیاد موسیٰ بِن نصیر کا آزاد کردہ غلام اور ناٸب تھا۔بحثیت انسان طارق بِن زیاد متقی, فرض شناس, پرہیز گار اور بلند ہمت انسان تھا۔

حرفِ آغاز

اُندلس ہسپانیہ کا بہت بڑا گنجان آباد علاقہ جو بحر اوقیانوس آبناۓ جبلِ طارق اور بحیرہ روم سے ملحق ہے۔مسلمانوں نے اس علاقہ پر تقریباً آٹھ سو سال تک حکومت کی۔شمالی افریقہ میں جب طنجہ تک کا علاقہ اسلامی اقتدار میں داخل ہو گیا, سبتہ ان اضلاع کا دارالحکومت تھا اور کٶنٹ جولین اسکا گورنر تھا۔جولین اُندلس کے ساتھ ساتھ گاتھ بادشاہ وٹیزا کا داماد بھی تھا اور اُندلس کی رسم کے مطابق اسکی بیٹی فلورنڈہ طیطلہ میں اُندلس کے نۓحکمران راڈرک کے محل میں تعلیم و تربیت کے لیے رہتی تھی۔شہنشاہ راڈرک فلورنڈہ کے حُسن پر عاشق ہو گیا اور اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔اس واقعہ سے ایسی آگ لگی جس سے راڈرک کا تخت و تاج اُلٹ گیا اور اس ملک میں ایسا انقلاب آیا کہ اس ملک کی تقدیر بھی بدل گٸ۔

موسیٰ بِن نصیر اور طارق بِن زیاد

فلورنڈہ نے حادثہ کی اطلاع اپنے باپ جولین تک پہنچاٸ, خبر سن کر جولین آگ بگولہ ہو گیا اور راڈرک کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگا۔سب سے پہلے جولین نے اپنی بیوی کی خراب صحت کا بہانہ بنا کر فلورنڈہ کو راڈک کے محل سے اپنے پاس بلایا اور پھر موسیٰ بِن نصیر سے مراسلت کی اور اُندلس پر حملہ کی تجویز دی ۔جولین چونکہ ایک عیساٸ تھا اس وجہ سے اُس پر اعتبار کرنا مشکل تھا کیونکہ جولین پہلے بھی عیساٸیوں کی حمایت میں مسلمانوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کر چکا تھا اس لیے موسیٰ بِن نصیر نے جولین کو پہلے حملہ کرنے کا حکم دیا ۔جب جولین کو مسلمانوں کے امیر نے سچا پایا تو مل کر اُندلس پر حملے کی تجویز بناٸ اور لشکر کا سپہ سالار طارق بِن زیاد کو چُنا اور حملہ کی تیاریاں شروع کیں۔

خواب میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت

لشکر کشی کے دوران طارق بِن زیاد نے خواب میں دیکھا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین اور انصارکے درمیان جلوہ افروز ہیں ۔صحابہ کرام ؓ تلوریں لٹکاۓ کھڑے ہیں اور رسولِ پاک طارق بِن زیاد سے فرما رہے ہیں! ”طارق! اسی شان سے قدم بڑھائے جاٶ”۔اس کے بعد طارق بن زیاد نے دیکھا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ اُندلس میں داخل ہٶے اور طارق بِن زیاد اس جماعت کے پیچھے ہیں۔طارق بِن زیاد نے اپنا خواب اپنے ساتهيوں کو بتایا جس سے مجاہدین کے دلوں میں ایمان اور جنگ کے لیے جوش و جزبہ پیدا ہوگیا۔اس مقدس خواب کو طارق بِن زیاد اور اسکے ساتهيوں نے فتح کی علامت سمجھا ۔

اُندلس پر حملہ

راڈرک کو اپنے جاسوسوں کی مدد سے حملے کا پہلے سے ہی پتہ تھا اور اس نے جنگ کی مکمل تیاریاں کر لی تھیں ۔راڈرک کی فوج ایک لاکھ جنگجو سپاہیوں پر مشتمل تھی جو گھوڑوں اور اسلحہ سے لیز تھی, جبکہ طارق بن زیاد کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی جس میں تھوڑے سے گھوڑے اور اسلحہ بھی کم تھا۔لیکن اسکے باوجود مسلمانوں کے حوصلے بلند تھے۔طارق بِن زیاد نے کشتیاں جلا دیں اور واپسی کا کوٸ راستہ نہ چھورا ۔

سپہ سالار

مسلمان اپنے سپہ سالار کی باتیں سن کر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے میدان میں اُترے اور فتح حاصل کی۔اس جنگ میں تین ہزار مسلمان شہید ہوئے عیسائی مقتولین کی لاشیں انگنت تھیں۔راڈرک بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور کسی قلعہ میں پناہ گزین ہو گیا۔اس طرح مسلمان اُندلس کی سر زمین پر قابض ہوئے۔ موسیٰ بِن نصیر نے فوج کی پیش قدمی روکنے کا حکم دیا۔ طارق بِن زیاد یہیں نہیں رُکا بلکہ آگے بڑھتا گیااور مختلف شہروں کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا جن میں جزیرہ خضرا ,قرطبہ, گرناطہ, تدمیر, مالقہ اور طیطلہ شامل ہیں۔ایک طرف موسیٰ بِن نصیر فتوحات سے خوش بھی تھااورحکم نہ ماننے کی وجہ سےطارق بِن زیاد سے ناراض بھی۔موسیٰ بِن نصیر نے حکم کی خلاف ورزی کرنے کی وجہ سے طارق بِن زیاد کو قید بھی کیا لیکن پھر رہا بھی کر دیا۔

وفات

آخر میں طارق بِن زیاد کی پوری زندگی گمنامی میں گزری یہاں تک کہ وفات کا سہی سن بھی معلوم نہ ہو سکا۔اس ایک بہادر اور عظیم جرنیل کی وجہ سے اُندلس اور یورپ میں اسلام پھیلا کیونکہ اُندلس فتح ہونے کےبعد راستہ آسان ہو گیا۔