دو انمول نعمتیں۔۔(شاہ حسین سواتی)

In اسلام
January 09, 2021

ہم اپنی حیات مستعار میں اللہ تعالی کی بے پناہ نعمتوں کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے روز کرتے بھی ہیں اور ان سے مستفید بھی ہو تے ہیں۔ان تمام نعمتوں پر اللہ کا شکر بجا لانا ضروری بھی ہے اور وقت کا تقاضہ بھی۔اللہ تعالی کی ان بے مثال نعمتوں میں دو نعمتیں ایسی ہیں جن کی نظیر نہیں۔حدیث مبارک میں ان دو نعمتوں کا خاص طور پر تذکرہ فرمایا ہے”فرمان نبوی ﷺہے۔۔۔
نعمتان مغبون فیھما کثیر من الناس الصحة والفراغ” کہ دو (عظیم)نعمتیں ایسی ہیں جن سے اکثر لوگ غافل(دھوکےمیں) ہیں وہ صحت اور فراغت ہے.
مفہوم۔۔۔
آپﷺ نے انتہائی کم وقت اور بڑے حکمت سے امت کی راہنمائی فرمائی ہیں۔جنت کی خوشخبری،اعمال کی فضیلت ،اللہ کے وعدے بڑے موثر انداز میں پیش کیۓ۔جہنم سے ڈرانے،اعمال کے وبال ،اور اللہ کے وعید بھی نرالے انداز میں ارشاد فرمائے۔اسی طرح آپﷺ نے امت کو سمجھانے اور بار بار انکی تربیت میں بے مثال کردار ادا فرمایا ہیں۔
اس روایت میں بھی آپﷺنے ایک اہم اور غور طلب بات کی نشاندہی کی ہیں۔اور دو نعمتوں کی قدر کرنے کی ترغیب دی ہیں ۔یعنی صحت اور فراغت۔

صحت ۔۔۔۔
اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ دو نعمتیں ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ صحت کے بغیر ہمارا جسم ادھورا رہتا ہے اور عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔کوئی بھی کام ہم اس وقت انجام دے پاتے ہیں جب ہماری صحت اچھی ہو ورنہ تو ہم دوسروں کے سہارے جینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔نماز کا سرور،تلاوت کی حلاوت ،زکر کا ولولہ،اور دیگر عبادات میں اچھی صحت ہی اثر انداز رہتی ہے۔جب ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو زندگی بے کیف،بے رونق اور وبال بن جاتی ہے۔صحت کی قدر تب سمجھ آتی ہے جب بیماری دستک دیتی ہے۔ لیکن تب ہمارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔
اس لیے اس نعمت کے چھن جانے سے پہلے اس کی قدر کرنی چاہیے۔تندرست صحت کے لیے متوازن خوراک،صاف ماحول،اور تازہ ہوا کی ضرورت کو پورا کرنا لازمی ہے۔

فراغت۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری نعمت انسان کے پاس فراغت جیسے عظیم نعمت ہے لیکن اس نعمت کی بھی کما حقہ قدر نہیں کی جاتی اور اس سے لا پرواہی برتی جاتی ہے۔آج کل کے مصروف زندگی میں یہ نعمت ہم سے ضائع ہو رہی ہے ۔جب مصرعفیت بڑھتی ہے اور عمل کے لیے وقت نہیں بچتا تب ہم اندازے لگاتے اور تبصرے کرتے ہیں لیکن ہم نے بہت دیر کی ہوتی ہے،کام کے لمحات ہم نے گنوائے ہوتے ہیں،دست آفسوس ملنے سے پھر ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اس لیے علماء نے لکھا ہے کہ نیکی میں دیر مت کیجئے کیا پتہ پھر موقع ملا ہے یا نہیں ،صحت اجازت دیتی ہےیانہیں،مصورفیات سے چھٹکارا پاتے ہیں ہا نہیں۔

صحت اور فراغت سے فائدہ کیسے حاصل ہو۔۔
اب قابل غور بات یہ ہے کہ ہم ان نعمتوں سے کیسے مستفید ہوں۔اگر ہم برووت مرض کی تشخیص کرتے ہیں تو پھر مرض سے چھٹکارا آسان ہوجاتا ہے۔اسلیے ضروری ہے کہ پہلے ہم ان عوامل پر غور کریں جن کی وجہ سے ہم ان نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں۔ان عوامل کو محدود کیا جائے،اور پھر ان محدود عوامل میں درجہ بندی کی جائے،سب سے اہم کو مقدم رکھا جائے،وقت کا بر محل استعمال کیا جائے،مرض کو بڑھنے نہ دیا جائے،جب بھی ہم سے صحت اور فراغت کے لمحات ضائع ہم اس کی تلافی کی صورتیں ڈھونڈیں ،خود کو مشقت دیں،اللہ سے معافی مانگے،اور دعا کا اہتمام کریں تو اللہ ہمیں ان نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق ضرور دے گا۔
یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ قیامت کے دن ان نعمتوں کے بارے میں پوچھے گا۔قرآن میں ارشاد ہے”اور اللہ ضرور تم سے نعمتوں کے بابت پوچھے گا” اس لیے یہ ذھن
نشیں ہو تو ہم اس عظیم خسارے سے بچ نکل سکتے ہیں۔
شاہ حسین سواتی