پاکستان ریلوے کی تاریخ

In تاریخ
January 10, 2021

سال1855 میں ، برطانوی راج کے دوران ، ریلوے کی متعدد کمپنیوں نے سندھ اور پنجاب میں ٹریک بچھانا شروع کیا۔ ملک کا ریلوے نظام اصل میں مقامی ریلوے لائنوں کا ایک پیچ ہے جو چھوٹی ، نجی کمپنیوں کے ذریعہ چلتا ہے ، جس میں سکندے ریلوے ، پنجاب ریلوے ، دہلی ریلوے اور انڈس فلوٹیلا شامل ہیں۔ 1870 میں ، چار کمپنیوں نے مل کر اسکینڈے ، پنجاب اور دہلی ریلوے کی تشکیل کی۔ بہت ساری ریل لائنیں جلد ہی بن گئیں ، جن میں انڈس ویلی اسٹیٹ ریلوے ، پنجاب ناردرن اسٹیٹ ریلوے ، سندھ – ساگر ریلوے ، سندھ – پشین اسٹیٹ ریلوے ، ٹرانس – بلوچستان ریلوے اور قندھار اسٹیٹ ریلوے شامل ہیں۔ یہ چھ کمپنیاں اسکندے ، پنجاب اور دہلی ریلوے کے ساتھ مل کر 1880 میں نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ریلوے تشکیل دی گئیں۔ 1880 اور 1947 کے درمیان ، شمال مغربی ریاست ریلوے نے پورے پنجاب اور سندھ میں توسیع کی۔

سال1947 میں آزادی کے بعد ، شمال مغربی ریاست ریلوے کا زیادہ تر انفراسٹرکچر پاکستانی سرزمین میں تھا اور اس کا نام پاکستان ویسٹرن ریلوے رکھ دیا گیا تھا۔ مشرقی بنگال میں ، پاکستانی حدود میں آسام بنگال ریلوے کے حصے کا نام پاکستان مشرقی ریلوے رکھ دیا گیا۔ ملک نے شمال مغربی ریاست ریلوے کے 8،122 کلومیٹر (5،047 میل) کو اپنایا۔ 6،880 کلومیٹر (4،280 ملی میٹر) 1،676 ملی میٹر (5 فٹ 6 انچ) ، 506 کلومیٹر (314 میل) میٹر ملی میٹر (3 فٹ 3 3⁄8 انچ) میٹر ، اور 736 کلومیٹر (457 میل) 762 ملی میٹر (2 فٹ) تھا 6 ) تنگ گیج

سال1950 سے 1955 تک ، مشرق مغرب ایکسپریس مغربی پاکستان میں کوہ تفتان سے مشرقی پاکستان کے چٹاگانگ تک چلتی تھی ، جس میں اٹاری اور بیناپول کے مابین 1،986 کلو میٹر (1،234 میل) روٹ پر ہندوستانی پٹریوں اور رولنگ اسٹاک کا استعمال ہوتا تھا۔ 1954 میں ، برانچ لائن کراچی – پشاور ریلوے لائن سے مردان اور چارسدہ تک بڑھا دی گئی۔ دو سال بعد ، جیکب آباد۔ کشمور میٹر گیج لائن کو 1،676 ملی میٹر (5 فٹ 6 انچ) براڈ گیج میں تبدیل کیا گیا۔ کوٹری – اٹک ریلوے لائن کا کوٹ ادو – کشمور سیکشن 1969 ء سے 1973 میں بنایا گیا تھا ، جو کراچی سے شمالی پاکستان تک ایک متبادل راستہ فراہم کرتا تھا۔ 1974 میں ، پاکستان ویسٹرن ریلوے کا نام پاکستان ریلوے رکھ دیا گیا۔ فروری 2006 میں ، 126 کلومیٹر (78 میل) حیدرآباد۔ کھوکھرپار برانچ لائن کو 1،676 ملی میٹر (5 فٹ 6 انچ) میں تبدیل کیا گیا۔ ملک میں تمام تنگ گیج پٹریوں کو 1،676 ملی میٹر (5 فٹ 6 انچ) میں تبدیل کیا گیا تھا یا 2000 کی دہائی کے دوران اسے ختم کردیا گیا تھا۔ 8 جنوری 2016 کو ، لودھراں – رائے ونڈ برانچ لائن ڈبل ریل پروجیکٹ مکمل ہوا۔

سال2014 میں ، وزارت ریلوے نے پاکستان ریلوے وژن 2026 کا آغاز کیا ، جس میں پاکستان کے ٹرانسپورٹ سیکٹر میں پی آر کے حصص کو 4 بلین سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، جس میں چین – پاکستان اقتصادی راہداری ریلوے میں 6 886.68 بلین ڈالر (5.5 بلین امریکی ڈالر) کا استعمال کیا گیا ہے۔ اس منصوبے میں نئے انجنوں کی تعمیر ، موجودہ ریل کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور بہتری ، اوسط ٹرین کی رفتار میں اضافہ ، وقتی کارکردگی میں بہتری اور مسافروں کی خدمات میں توسیع شامل ہے۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 2017 میں مکمل ہوا تھا ، اور دوسرا مرحلہ 2021 تک مکمل ہونے والا ہے۔ پاکستان ریلوے بین الاقوامی یونین ریلوے کا ایک سرگرم رکن ہے۔

1 comments on “پاکستان ریلوے کی تاریخ
    Mohammad Anwar bhatti

    ریلوے پنشنرز کے ساتھ سوتیلی ماں کا سابرتاؤ
    تحریر۔محمدانور بھٹی
    جہاں ملک پاکستان میں ایک طرف حکومت کی بدترین بد انتظامی عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ دوسری طرف ملک میں مسلسل بڑھتی ہوئی بے لگام اور منہ زور مہنگائی نے عوام کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگانے والے حکمرانوں نے بے حسی کی چادر اوڈھ رکھی ہے ۔ان کی اس بے حسی اورغلط معاشی پالیسیوں کی بدولت عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے اس کو بدنصیبی ہی کہیں گے کہ عرصہ چار سال کا عرصہ گزرنے کو آیا ہے مگر یہ ابھی تک اپنی کوئی معاشی ٹیم بھی تشکیل نا دے پائے ہیں ۔ بشمول وزیر اعظم اسلامی جمہوری پاکستان کے وزراءاور مشیروں کی فوج ظفر موج میں سے کسی کو بھی عوام کی معاشی پریشانی کا کوئی بھی احساس نہیں ہے۔بلکہ وہ سب ملکر سب ٹھیک ہے کی بانسری بجا رہے ہیں ۔بی حسی کا یہ عالم ہے کہ آئے روز نت نئے ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات،گیس اور بجلی کے نرخوں میں بے پناہ اضافے کےساتھ ساتھ روز مرہ کی استعمال ہونے والی اشیاء ، گھی ، آٹا، چینی، دالیں ،دودھ اور سبزیوں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں نے عام آدمی ، مزدور، محنت کش اور قلیل تنخواہ پانے والے افراد کی زندگیوں کو اجیرن اور مشکل سے مشکل ترین بنا ڈالا ہے۔ یہ تمام اشیاء اب انکی قوت خرید سے باہر ہوتی چلی جارہی ہیں ۔ غریب عوام فاقہ کشی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومتِ وقت کے نزدیک اس کی کوئی ترجیح نہیں ہے۔ یاپھر حکومت وقت کے ہاتھوں اب اس منہ زور مہنگائی کی موہار نکل چکی ہے۔ اب ان کے بس میں نہیں رہا ہے یہ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پاسکتے ہیں یاپھر یہ کہ تحریک عوام کی حکومت عوام دشمنی میں عوام کو مہنگائی ،غربت، اور بے روز گاری کی جانب دھکیل رہی ہے نہ جانے یہ حکومت عوام کو کس ناکردہ گناہ کی پاداش میں سزا دے رہی ہے۔ ان سے کس بات کے گن گن کر بدلے لیئے جارہے ہیں۔ ایک عام آدمی، محنت کش اور مزدور آج یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ انہیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔
    اِن تمام حالات کے پیشِ نظرجمہوریت اور شوشلزم کے بلند وبانگ دعوےاور ملکی رہنماؤں کے وعدے عوام کے لیے سراب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے ہیں ۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی غربت،بے روزگاری اوربھوک وافلاس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
    جیساکہ حکومت کے دستور میں عوام سے اس بات کا وعدہ کیا گیاہےکہ حکومت وقت اِنکی زندگی کی لازمی ضروریات اور امن وخوشحالی کو پورا کرنے کی پابند ہےاس وعدے کی روشنی میں حکومت وقت پابند ہے کہ وہ مہنگائی ، بے روز گاری اور اس کے بدولت بگڑتی ہوئی امن وامان کی صورت پر قابو پائے۔ اپنے تمام تر وسائل اور قوت بروئے کار لاتے ہوئے ۔ رشوت خوروں، بے ایمانی اور ذخیرہ اندوزوں کا محاسبہ کرکے اِن کو عبرت ناک سزائیں دیتی۔ مگر حالات وواقعات نے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ حکومت اب ان تمام وعدوں اور دعوؤں سے منحرف ہوکر راہ فرار اختیار کرچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جسکی بدولت آج ملک میں بڑھتی ہوئی بد انتظامی کی ٖفضا چھائی ہوئی ہے ۔عوام مایوسی اور بے اطمینانی کا شکار ہوچکی ہے۔ہر طرف ہو کا عالم ہے تخریبی کاروائیوں ، لوٹ مار چوری چکاری اور توڑ پھوڑ جیسی کاروائیوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے ملک کے تمام طبقہ ہائے زندگی کے لوگ بےسکونی بے اضطرابی اور بے چینی کا شکار ہیں۔اِس وقت ہمارے ملک کی بے موہار بیرو کریسی اور اندھی سیاست نے ملکی تمام ٹریڈیشن کو تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا ہے۔ہرطرف سے بے رنگوبے نموس انداز میں یوں آگے بڑھ رہی ہے کہ ہر چیز کو رنگیگتی اور روندتی چلی جارہی ہے ۔ یوں تو یہ المیہ پورے معاشرے کا ہے پورے ملک کا ہے ہر ادارے کا ہے۔
    مگر اس وقت میں ایک ایسے ادارے اور اس کے محنت کشوں کی روداد بیان کرناچاہتاہوں کہ جو ادارہ ہمارے ملک کی معاشی اور دفائی صورت حال میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس ادارے کی اور ادارے سے وابستہ افراد کی تمام تر محنت اور خدمات کو بھلا کرادارے کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ لوگوں کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک اور برتاؤ روارکھا گیا ہے ۔اور خاص طور پر اُن ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ جنہوں نے چالیس بیالیس سال ریلوے کے ہر شعبہ ذات میں بڑی محنت، لگن ،ایمانداری، اور جانفسانی کے ساتھ اپنی خدمات اور فرائض سر انجام دیئے ہیں۔جوکہ اپنی جوانی کے سنہرے اور قیمتی ماہ وسال اس ادارے پر قربان کرکےریٹائرڈ ہوکر اپنے اپنے گھروں کو یہ امیدلیکر لوٹےتھے کہ اب ان کی زندگی کے باقی ماندہ ایام اب خوشحالی اور امن وسکون کے ساتھ گزرے گے۔ دوران ملازمت ان ملازمین نےاپنی تنگی ومصائب یہ سوچ کر برداست کیں۔ کہ ان کااور اور ان کے بچوں کا مستقبل روشن اور تابناک ہوگا۔ اور اپنے آنکھوں میں مستقبل کے بارے میں یہ خواب سجائے کہ ان کےریٹائرڈ ہونے کے بعد والی زندگی وہ اپنے اہل وایال کے ساتھ پرسکون گزار سکیں گے۔مگر افسوس صد افسوس ستم ظریفی کایہ عالم ہے کہ حکومت وقت کی غلط پالیسیوں کی بدولت ان کے وہ خواب جو کہ انہوں نے اپنے مستقبل کے بارے میں اپنی آنکھوں میں سجاٸے تھے وہ سب کے سب چکنہ چور ہوچکے ہیں ۔ اب جبکہ یہ اپنی سروس مکمل کرکے ریٹائرڈ ہوچکے ہیں تو ان کے ساتھ حکومت وقت کی طرف سے کوئی اچھا سلوک اور برتاؤ نہیں کیا جارہا ہے ۔ آج بھی انکو انکے بنیادی حقوق نہیں دیئے جارہے ہیں ۔ افسوس کا مقام ہے کہ ملازمین کو ادارے سے ریٹائرڈ ہوئے دو دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ مگر ان کو اِن کی گریجویٹی کی مد میں ملنے والی رقم ان کو تا حال ادا نہیں کی گئی ہیں ۔ اور نا ہی اُن بیواؤں کو جن کے شوہر دورانِ سروس انتقال کرچکے ہیں اُن کو گروپ انشورنس کی مد میں ملنے والی رقم ادا کی گئی ہے۔ جو کہ سراسر نا انصافی پر مبنی ہے۔ اپنی ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین ، سروس کے دوران وفات پا جانے والے ملا زمین کی بیوائیں اور ان کے یتیم بچے آج بے سرو سامانی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ کسی جانب سے بھی ان کی کوئی داد رسی نہیں ہو پارہی ہے ۔ یہ لاگروضعیف پنشنر لاچاراور مظلوم بیوائیں اور یتیم بچےاب راہ تک رہے ہیں کیا کوئی مسیحا ان کی داد رسی کو آئے گا جو کہ ان کو ان کے حقوق دلا کر ان کو ان مصائب اور مشکلات سے نجات اور چھٹکارا دلا پائے گا ۔دودو سال سے اِن کے واجبات کی مد میں ملنے والی وہ رقم جو کہ ان کا قانونی اوربنیادی حق ہے کا نا دیا جانا اس سے محروم رکھا جانا ان کے ساتھ ظلم وزبر اور نا انصا فی نہیں ہے تو پھر کیا ہے۔ ان کے بچے اور بچیاں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں۔جب کہ ان کے والدین ان کی شادیاں اوران کے ہاتھوں پر مہندی رچانےمیں لاچار اورمجبور نظر آرہے ہیں۔جبکہ اکثر ملازمین نے بہ حالت مجبوری جو کہ اپنے بچو ں اور بچیوں کے رشتے طہ کرچکے تھے۔ اُن کے رشتہ ازدواج کے فرض کو نبھانے کی خاطر بہ حالت مجبوری سود پرقرض لیکر اپنی بچیوں کی ڈولیاں اٹھائی ہیں۔کئی ایک ملازمین نے اس اُمید پر کہ اُن کو اُن کے واجبات وقت پر مل جائیں گے اپنے بچوں کے سر پرچھت مہیا کرنے کی خاطر مکان اور پلاٹوں کا اقساط کی صورت میں یا کچھ رقم ایڈوانس/ٹوکن کر صورت دے کر سودےکٸے ہوٸے تھے مگر بروقت اُن کے واجبات نا ملنے کے سبب اُنکی طرف سے اداکی گئی رقم بھی ڈوب چکی ہے۔ یہاں غور طلب ایک بات یہ بھی ہے کہ آیا دوسال پہلے ہمارے روپے کی قدر وقیمت جو تھی وہ آج باقی رہی ہے دو سال پہلے جس مکان وپلاٹ کی قیمت تھی کیا وہ پلاٹ اور مکان آج جب ان کوجب ان کی رقم کی اداٸیگی ہوگی تو وہ دوسال پہلے والی قیمت میسر ہونگے۔ نہیں ہرگز نہیں تو پھر آخر ان ریٹائرڈ ملازمین کا کیا قصور ہے جوکہ ان کا اسطرح سے معاشی استحصال کیا گیا ہے۔
    مگر ارباب اختیارکو اِن کے مسائل اور مشکلات سے کوئی سروکاراورادراک نہیں ہے ۔مگر سوچنے کا مقام یہ ہے کہ آخرحکومتِ وقت کی طرف سے ریل کے ریٹائرڈ ملازمین کےساتھ ہی یہ سلوک اور برتاٶ کیوں رواں رکھاجارہا ہے۔ انکو انکی کس غلطی کی پاداش میں یہ سزا دی جارہی ہے ۔ ان ہی کے بنیادی حقوق کیوں سلب کئےجارہے ہیں ۔آخر کب تک ان پر یہ ظلم وبربیت کے پہاڑ توڑے جائیں گے۔ ان لوگوں کے حالات اِس قدر سنگین اور بدتر ہوچکے ہیں جو ناقابل بیان ہیں۔بیواؤں کو بہبود فنڈ کی مد میں ملنے والی رقم بھی دو دو سال سے اُن کو ادا نہیں کی جارہی ہیں۔حد تو یہ ہوگئی ہے پچھلے کئی ماہ سے ریلوے پنشنرز کو ان کی ماہانہ پنشن کی بھی بروقت ادائیگی تعطل کا شکار ہورہی ہے۔ وہ بھی ہفتہ ہفتہ لیٹ مل رہی ہے۔ اب اس سے برابرتاٶ اور ناروا سلوک اورکیا ہوسکتا ہے ۔ جب ان ضعیف العمر بزرگ پنشنرز، بیواؤں اور یتیم بچوں کو ان کی ماہانہ پنشن بھی ٹائم پر نہیں ملے گی تو ان کا روز مرہ کا گزراوقات کیسے ممکن ہوپاٸےگا یہ اپنی زندگانی کا پہیہ کیسے رواں دواں رکھ پائیں گے ۔ کیا ریاست مدینہ کے دعوے داروں نے کبھی اِن کی مشکلات کا سوچا ہے۔ جوکہ اٹھارہ سے بیس ہزارپنشن لے رہے ہیں اور وہ بھی بر وقت نہیں مل پارہی ہے ۔ ان کی زندگی کیسے گزر رہی ہوگی۔
    خدارا اس طرف توجہ دیجئے ان کے بارے میں کچھ سوچئےان کے چولہے بجھ چکے ہیں یہ فاقہ کُشی پر مجبور ہوچکے ہیں ۔ ان کی زندگیاں بہت اجیرن اور کھٹن ہوچکی ہیں ان کو خود کُشی کر نے پر مجبور نا کیا جائے۔ ان کو معاشرے میں عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق دیا جائے۔ ان کی زندگیاں آسان بنائی جائیں ۔ اِنہوں نے اپنی زندگی کے سنہرے ماہ وسال اس ادارے کی خدمات کی انجام دہی میں قربان کئے ہیں ۔ انہوں نے اس ادارے کے پہیے کو رواں دواں رکھنے کے لئے اپنا خون اور پسینہ بہایا ہے ۔ یہ مجبور ،لاچاراور بے کش لوگ ہیں ان کی بے کشی ، لاچاری اور مجبوری کا مذاق نا اڑایا جائے۔ ان کی دی ہوئی خدمات اور قربانیوں کویوں فراموش نا کیا جائے۔
    میری اقتدار اعلٰی کی مسند پر برا جماء لوگوں سے اپیل ہے کہ خدارا کچھ ایسے اقدامات بروئے کار لائے جائیں جن کی بدولت سے انکی مایوس کُن زندگیوں میں بھی بہار کی رونقیں لوٹائی جاسکیں ۔ ان کی زندگی کے اس آخری حصہ میں بھی آرام وسکون میسر آسکے۔ مہنگائی میں روز بروز اضافے کو مِدنظر رکھ کر اِنکی ماہانہ پنشن میں خاطر خواں اضافہ کیا جائے ۔ انکی ماہانہ پنشن کی بروقت ادائیگی کو ممکن بنانےکے ساتھ ساتھ انکے وہ تمام واجبات کے بقایاذات جو کہ مختلف حیلے وبہانے بناکر روکے گئے ہیں اُن واجبات کی فی الفور ا ادائیگی کے فوری انتظامات کئے جائیں ۔ تاکہ اِن کی اور اِن کے بچوں کی زندگیوں کو آسان اور سہل بنایا جاسکے،ورنہ ان کے زباں سے نکلنے والی بددعائیں اور آہیں آسمان کو چھوئیں گی۔
    جتنا ممکن ہو سکتا ہے ان کی ان آہوں سے بچا جائے ۔

Leave a Reply