سراب (حصہ دوم)

In افسانے
January 10, 2021

جس کے بازوؤں کے حصار میں مجھے تحفظ کا احساس ہو.. شرجیل گردیزی…… چندا بڑبڑاتی رہی اور اسی طرح خود سے لڑتے لڑتے بالآخر نیند نے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا.
دروازے پر دستک ہوئی تو چندا نے آنکھیں کھولیں. ملازمہ نے بتایا کہ نواب سکندر صاحب تشریف لائے ہیں. چندا بوکھلا کر بستر سے اُٹھ کھڑی ہوئی. تب اُسے وقت کا احساس ہوا کہ وہ شام کی سوئی اب رات کے وقت جاگی ہے.
نواب صاحب سے کہو کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں. آپ دو تین روز بعد تشریف لایے گا. چندا نے ملازمہ کے ہاتھ پیغام بھجوایا اور خود بستر پر دراز ہو گئی. تکیے کے قریب رکھے ناول پر نظر پڑی تو اُس کے لب آپ ہی آپ حرکت کرنے لگے. “شرجیل گردیزی ” آنکھیں بند کیے وہ ایک ہی نام دہرائے جا رہی تھی. اب وہ کھلی آنکھوں سے اُس کے خواب دیکھنے لگی تھی. اُسے معلوم بھی تھا کہ یہ خواب کبھی سچ نہیں ہو گا. مگر دل پر آج تک کب کسی کا بس چل سکا “جو چندا کا چلے” چندا اِنہی سوچوں میں غرق تھی کہ ملازمہ چائے لائی.
چائے یہاں رکھ دو. اُس نے میز کی طرف اشارہ کیا.
جی بہتر.ملازمہ چائے رکھ کر پلٹ گئی.چندا بستر سے اُٹھی. چائے کا کپ دونوں ہاتھوں میں لیے کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی. وہ ایک بار پھر اُنہی خیالات کے سمندر میں اُترنے لگی. اَن دیکھا چہرہ کسی دھندلے عکس کی مانند ذہن کے قرطاس پر ابھر رہا تھا.
کیوں نہ شرجیل کو تلاش کیا جائے. اُس نے خود سے مخاطب ہو کر کہا. صبح ہوتے ہی وہ تلاش کے لیے نکل پڑی. شرجیل کی طرف کھنچاؤ اُسے مجبور کر رہا تھا کہ وہ اُسے ضرور ملے.. چند منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک عمارت کے سامنے رکی.
شہر کا معروف پریس آفس اِسی عمارت میں تھا
گاڑی پارک کر کے چندا گاڑی سے نکلی اور اندر کی جانب بڑھی. پریس آفس میں پہنچ کر چندا نے اردگرد نظر دوڑائی اور پھر ایک کیبن کی جانب بڑھ گئی جہاں ایک بارعب شخص کرسی پر براجمان تھا. وہ شخص اپنے سامنے رکھے کاغذوں میں سر دیے بیٹھا تھا. چندا اُس کے سامنے جا کھڑی ہوئی تو اُس نے سر اوپر اُٹھایا اور چندا کو بغور دیکھتے ہوئے بولا.
محترمہ معاف کیجیے گا میں آپ کو نہیں جانتا. اپنا تعارف اور آنے کا مقصد بیان کریں؟؟
چندا نے تھوک نگلتے ہوئی لب کشائی کی.
جی میرا نام چندا ہے… مجھے آپ سے… آپ سے مدد درکار ہے.
فرمایے میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟؟ اُس شخص نے چندا کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا.
میں شرجیل گردیزی کی فین ہوں اور اُن سے ملنا چاہتی ہوں. چندا نے بلا تمہید مدعا بیان کیا
کیا آپ مجھے اُن کا ایڈریس دے سکتے ہیں ؟؟ چندا نے التجائیہ لہجے میں کہا.
سوری میڈم ہمیں اجازت نہیں ہے.
دیکھیں میں بہت امید لے کر آئی ہوں.پلیز آپ…
کہہ دیا ناں نہیں دے سکتے
یہ ہماری کمٹمنٹ کے خلاف ہے. اُس شخص نے چندا کی بات کاٹتے ہوئے قدرے سخت لہجے میں کہا.
چندا کو اپنے خواب ٹوٹتے دکھائی دیے. اُس کی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے. وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور واپس چلی آئی.
ہفتے کی صبح وہ پھر اُسی آفس میں موجود تھی. چندا کا سامنا پھر اُسی شخص سے ہوا. اُس نے چندا کو بلایا اور اپنے سامنے بیٹھنے کو کہا. چندا ایک بار پھر منت سماجت کرنے لگی.
وہ شخص خاموشی سے چندا کی طرف غور سے دیکھتا رہا.
پھر زیرِ لب مسکرایا اور کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھنے لگا.. پھر وہ ٹکڑا چندا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
یہ ہے اُن کا ایڈریس اور خبردار اِنہیں یہ نہ پتا چلے کہ ایڈریس مجھ سے لیا ہے.
چندا کو حیرت بھری خوشی کا سامنا تھا. وہ وعدہ کر کے تیزی سے آفس سے نکل آئی. چندا بتائے گئے ایڈریس پر پہنچی تو دروازے پر تالا لگا ہوا پایا. پاس سے گزرتے بچّے سے جب شرجیل کا پوچھا تو اُس نے بتایا کہ مکان تو یہی ہے وہ اِس وقت نماز ادا کرنے گئے ہوں گے. چندا پلٹنا ہی چاہتی تھی کہ بچّے نے دور سے آتے ہوئے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ رہے انکل شرجیل.
چندا نے فوراً اُس سمت دیکھا. سفید شلوار قمیض میں ملبوس دراز قد کا مالک شرجیل گردیزی اُس کے قریب پہنچ چکا تھا. اُس کے خوبصورت نقوش اور شاندار پرسنیلٹی سے چندا مرعوب ہو گئی.
“چندا تُو اِس شخص کے قابل نہیں ہے” چندا کے اندر سے آواز آئی. وہ کشمکش میں مبتلا ہو گئی کہ شرجیل سے ملے یا واپس لوٹ جائے.
محترمہ آپ کو کس سے ملنا ہے؟؟ شرجیل نے اُسے اپنے دروازے کے قریب کھڑے دیکھ کر پوچھا.
وہ……… میں….وہ میں… آپ سے… دراصل مجھے شرجیل گردیزی صاحب سے ملنا ہے. چندا نے تھوک نگلتے ہوئے بہ مشکل کہا
کہیے کیا کہنا ہے؟؟ میں ہی شرجیل گردیزی ہوں. شرجیل تالا کھول چکا تھا.
مجھے آپ کی تحریر بہت اچھی لگتی ہے میں آپ کے افسانے بہت شوق سے پڑھتی ہوں. آپ سے ملنے کو دل چاہا تو چلی آئی. آپ سے ملاقات ہو گئی اب میں چلتی ہوں. چندا نے جلدی جلدی بات مکمل کی اور واپس پلٹی کہ شرجیل گردیزی کی آواز نے اُس کے قدم روک دیے.
سنیئے…! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ایک کپ چائے ضرور پی کر جائیں. آپ دروازے سے ایسے ہی پلٹ جائیں گی تو مجھے اچھا نہیں لگے گا. شرجیل گردیزی نے اُسے رُکنے پر مجبور کر دیا. چندا بِنا کچھ کہے اندر کی جانب بڑھ گئی. شرجیل کے پیچھے چلتے ہوئے وہ ڈرائنگ روم تک آئی اور صوفے پر بیٹھ گئی. شرجیل کا قرب اُس کی دھڑکنیں بےترتیب کر رہا تھا.
معاف کیجیے گا آپ کو انتظار کرنا پڑے گا. میں چائے لے کر حاضر ہوتا ہوں. چندا اُسے کچن کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہی تھی. اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہے اور کیا کرے. وہ خود سے اُلجھ رہی تھی. میں کیسے کسی سے پیار کر سکتی ہوں؟ میں ایک طوائف ہوں.

/ Published posts: 4

My name is Muhammad Arish Khan. I belong to the city of Khanewal. I am a lecturer of Urdu in Punjab Group of Colleges

Facebook