عالمی وباء اور پاکستان کا مہنگا صوتی تعلیمی نظام

In تعلیم
January 10, 2021

جب بھی دنیا میں وبائی امراض پھوٹتے ہیں تو جہاں بہت سے لوگ جان سے جاتے ہیں واہیں دنیا معاشی طور پر زیر و زبر ہو جاتی یے
2019ء میں آنی والی عالمی کرونا وائرس کی وبا نے اس دنیا کے وقت کی جدید ترین طبی دنیا کو جہاں چیلنج کیا وہاں اس نے دنیا کی معیشت کے تمام شعبوں سمیت ہر شعبے کو ہلا کر رکھ دیا
ان میں ایک شعبہ تعلیم کا بھی ہے
جو تمام دنیا کی تمام اقوام کے نوجوانوں کا مستقبل اور سب سے اہم تریں ستون ہوتا ہے
تعلیم سے ہی تمام قوموں اور معاشروں کا مستقبل وابسطہ ہوتا ہے
جو اس وائرس کے حملے سے شدید متاثر ہوا ہے
پوری دنیا کے اندر درس و تدریس کا عمل اس کرونا وائرس کی وبا سے رک کر رہ گیا ہے
تعلیم کے نظام کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے دنیا کے تمام ممالک نے اپنے اپنے انداز میں اس کو جاری رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں سب سے اہم انٹرنیٹ کے زریعے فاصلاتی نظام تعلیم ہے
جس کے ذریعے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر طالب علم اور معلم ایک دوسرے کے رابطے میں رہتے ہیں
اور یوں انٹرنیٹ کی مدد سے طالب علموں کے علم کی شمع کو بجھنے سے بچانے میں مدد لے لی گئی
کرونا وائرس کے حملے سے جتنی بھی ٹیلی کمیونیکیشن سے وابسطہ کمپنیاں ہیں نے انٹرنیٹ کو فروخت کر کر کے خوب پیسہ بنایا
کیونکہ طلباء و اساتذہ نے انکے انٹرنیٹ پیکج خوب خریدے اور اس طرح ان کمپنیوں کی چاندی ہو گئی
اس وجہ سے جہاں طلبہ اور اساتذہ کو اس انٹرنیٹ نے جہاں آپس میں رابطے میں رکھا وہاں انکے اخراجات میں بھی اضافہ کیا
کیونکہ علم کے حصول کے لیے اون لائن کلاسز لیتے وقت طلبہ و اساتذہ نے انٹرنیٹ کے استعمال کی وجہ سے موبائل فون کا بل چار گناہ سے بھی بڑھ گیا
اور یوں جس گھر میں طالب علم زیادہ ہیں وہاں صورتحال مزید سنگین ہو گئی
اس سارے معاملے میں جہاں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے احساس امداد پروگرام شروع کیا
وہاں کہیں بھی ان طلبہ کے لیے انٹرنیٹ کے کسی بھی سستے پیکج کا اعلان نہ ہونا بھی سمجھ سے باہر ہے
اس صورتحال میں
وزیر مواصلات جناب مراد سعید بڑے بڑے داعوے تو کرتے نظر آتے ہیں مگر کہیں بھی طلبہ اور اساتذہ کے لیے سستا انٹرنیٹ پیکجز کا اعلان کرتے نظر نہیں آرہے
بلکہ یہاں تک کہ پی ٹی سی ایل نے بھی انٹرنیٹ کا سستا پیکج برائے طلبہ پیش نہیں کیا
ہمارے ملک میں حکمرانوں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں
کہ جس ملک کی غربت کی سطح بلند ہو وہاں ہینڈرائیڈ موبائل فون غریب والدین کیسے خریدیں گے
اور کیسے انٹرنیٹ کے لیے رقم کا بندوبست کریں گے اور انکی تعلیم کو اس وائرس کی عالمی وبا میں کیسے جاری رکھ سکیں گے
جبکہ آئے دن موبائل فون کی انڈسٹری پر ٹیکس عائد کر کے عوام کو مزید مہنگائی کے بوجھ تلے دبا کر والدین کو موبائل کی خریداری میں مشکلات کھڑی کر چکی ہیں
حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ اس مشکل صورتحال میں جہاں تک ممکن ہوتا تعلیمی اداروں اور موبائل بنانے والی کمپنیوں سے مل کر اس کا کوئی آسان حل نکالا جاتا
اور بذریعہ تعلیمی ادارے والدین کو بلا کر انکو یہ موبائل ٹیکس فری مہیا کئے جاتے
جس سے والدین میں حکومت کے جانب سے حقیقی احساس کا ایک اچھا عکس نظر آتا
مگر ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا
اب جبکہ دوسری لہر 2020 میں دوبارہ آچکی ہے جس سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے ابھی تک طلبہ اور اساتذہ کے اس بنیادی مسئلے کو کسی نے نہیں اٹھایا اور نہ اس مسئلے کو حکومت کے آگے اٹھانے کا سوچا ہے
اگر حکومت وقت گزر جانے کے بعد سوچے تو اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا
حکومت کے پاس وزیروں مشیروں کی ایک طویل قطار موجود ہے مگر یہ سب وزیر اعظم کے سامنے بیٹھ کر صرف تعریفیں کرتے تھکتے نہیں
نہ کوئی عوام کے بہتری کے لیے قابل عمل مشورے وزیر اعظم کے گوش گزار کرتے ہیں
یہی وجہ ہے جب وزیراعظم فیصلہ کرتے ہیں تو اس فیصلے کو قابل عمل نہ پا کر
محترم وزیراعظم کو اپنے فیصلوں سے یو ٹرن لینا پڑ جاتا ہے
جناب وزیر اعظم عمران خان آپ سے گزارش ہے
کہ ایک آن لائین تعیلم کانفرنس ضرور کریں
جس میں تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور تعلیمی میدان کے ماہرین سے کرونا وائرس جیسی وباء کے مشکل حالات میں تعلیم کو جاری رکھنے کے متعلق مشاورت ہو سکے جو مشورے ان احباب سے ملیں گے یقینا قابل عمل ہونگے
جو تعلیم کی بحالی اور قوم کے روشن مسقبل کے لیے مفید ہونگے
کیونکہ تعلیم ہی قوم کو عظیم بناتی ہے
بقول
حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند