لو گوں کے ساتھ انبیاء علیہم السلام کا طرزِ گفتگو

In اسلام
January 11, 2021

امام صادق علیہ السلام کی حدیث کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی اپنی کنہ عقل کے ساتھ لوگوں سے خطاب نہیں کیا،
ماکلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم العباد بکنہ عقلہ قط۔(۳۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ بیان فرمایا وہ بس لوگوں کی عقلوں کی صلاحیت کے مطابق فرمایا ہے
یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حقیقت عقل،اپنی عقل کی گہرائی کے ساتھ کبھی بھی انسانوں سے گفتگو نہیں کی ہے چونکہ اس عقل کی گہرائی سے گفتگو ہو تو انسانوں کے پلے نہیں پڑتی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ
انامعاشر الانبیاء امرناان نکلم الناس علی قدر عقولھم۔۔۔(۴۰)
بے شک!ہم گروہ انبیاء اس بات پر معمور ہیں کہ لوگوں سے انکی عقلوں کے مطابق گفتگو کریں۔۔۔
یعنی انبیاء علیہم السلام لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق مطالب کو تنزل دیتے ہیں،لوگوں کو چاہئے کہ ہماری ذہنی سطح پر آجائیں لیکن یہ لوگوں کیلئے دشوار ہے پس ہم مطالب کو آسان کرتے ہیں اور لوگوں کیلئے قابل فہم بنا دیتے ہیں لہذا قرآن کا نزول عمومی اور نزول خصوصی ہے،پہلے یہ لوح محفوظ سے یا کتاب مکنون سے قلب نورانی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آیا اور اب قلب نورانی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلوب مومنین تک بھی انہی دو مرحلوں میں آئے گا،ممکن ہے ایک انسان کو قرآن پوری عمر میں جاکر سمجھ آجاۓ،ممکن ہے چند سال لگ جائیں مثلاً قرآن سمجھتے ہوئے یا قرآن کو اپنی زندگی کا منشور بناتے ہوئے تئیس سال لگ جائیں کہ خوانخواہ یہ کام تدریجاً ہوگا لیکن اس کے لئے نزول رمضانی ونزول لیلتہ القدر مقدمہ بنے گا،اگر یہ نزول نہیں ہوا تو وہ تدریجی بھی نہیں ہوسکتا ہے،اس لئے ماہ رمضان ماہ فہم قرآن مجید ہے۔

/ Published posts: 22

کی محمد سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں

Facebook