آلودگی-(طارق منظور ملک)

In عوام کی آواز
January 12, 2021

ہم نے کبھی آلودگی کا نہیں سوچا آلودگی میں دلچسپی نہیں لی –کبھی ہم نے اسے اہمیت نہیں دی-ہمارے لیئے یہ ایک غیر ضروری عنصر ہے-ظاہر ہے ہمارے ملک میں تعلیم ، صحت،اور پینے کے صاف پانی جیسے بڑے مسائل حل طلب ہیں تو آلودگی کی کسے فکر ہے –آلودگی اتنا سادہ اور آسان ایشو بھی نہیں-کہ ہر ایک کی سمجھ میں آ جائےلیکن میری خواہش ہے اور مضمون لکھنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمیں اس کی سمجھ بُوجھ ہونی چاہیئے اور ہمیں اس کا سدِباب کرنا چاہیئے-
آلودگی کئی طرح کی ہوتی ہے –اس کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں –
– فضائی آلودگی
– روشنی کی آلودگی
-گندگی
-شور کی آلودگی
-پلاسٹک کی آلودگی
-مٹی کی آلودگی
-تابکاری کی آلودگی
-حرارتی آلودگی
-بصری آلودگی
-پانی کی آلودگی
ہمارے ملک میں ہر طرح کی آلودگی بکثرت پائی جاتی ہے –اگر ہم اوپر سے نیچے ترتیب وار دیکھیں تو سب سے پہلے فضائی آلودگی ہے-آپ نے فضائی آلودگی کو تو بغور محسوس کیا ہو گا-ہماری فضاء کتنی آلودہ ہے – فیکٹریوں کی چمنیوں سے اور اینٹوں کے بھٹوں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں – اسی طرح کیمیکل بنانے والی فیکٹریوں سے نکلتے ہوئے بخارات فضاء میں بغیر کسی رکاوٹ کے شامل ہو جاتے ہیں اور جب ہم ایسی فضاء میں سانس لیتے ہیں تو سانس کی پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں –ہمیں فیکٹریوں کے اخراج والی جگہوں پہ سکربر لگانے چاہیئے اور سکربر میں ٹریٹ کرنے کے بعد کیمیکل یا دھواں کو فضاء میں چھوڑنا چاہیئے-ہمیں دھواں دیتی گاڑیوں اورفضاءمیں لیڈ کی آمیزش کو روکنا چاہیئے-
روشنی کی آلودگی دراصل ہمارے گھروں ، دفاتر ، شادی ھالز اور مالز میں تیز روشنیوں کا استعمال ہے – یہ استعمال اب بڑھ گیا ہے-ایسی روشنیاں جس میں ہماری آنکھیں چندھیا جائیں روشنی کی آلودگی ہے –
گندگی کے ڈھیر بھی آلودگی ہے –ہمارے گاؤں دیہات کے علاوہ ہمارے شہر وں میں جا بجا گندگی کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں اور ان ڈھیروں کو تالیف کرنے کا کوئی طریقہ کار سرے سے موجود نہیں –ہم گھر کا کچرا -کچرا کنڈی میں ڈال دیتے ہیں بڑے بڑے ڈمپر کچرا کنڈی سے نکال کر کچرا شہر سے باہر کھلے میدانوں میں ڈال دیتے ہیں –کچرا کو انسینٹریٹ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں-اس کو مناسب طریقہ سے بہت زیادہ درجہ حرارت پر کلن میں جلا کر ختم کرنا چاہیئے-
شور کی آلودگی توبہت زیادہ ہے روڈز پر گاڑیوں کا شو ر-گھروں میں بجلی کے آلات کا شور- فیکٹریوں میں مشینوں کا شور-بجلی کے جینریٹرز کا شور –سبزی فروش –اور مانگنے والوں کا شور بھی آلودگی کے زمرے میں آتا ہے-
پلاسٹک کی آلودگی نے تو شہروں کا حسن برباد کر کے رکھ دیا ہے جگہ جگہ شاپنگ بیگ اور پلاسٹک کی چیزوں کی بھر مار ہوتی ہے اور یہ نہ ختم ہونے والی پلاسٹک ہوتی ہے – اب شہروں میں پلاسٹک بیگز پر پابندی لگائی جا رہی ہے-مٹی کی آلودگی ہم نے اپنی مٹی میں کیمیکل ملا پانی چھوڑ کے خراب کر دی ہے-کچھ ہم نے اس کے اندر ہسپتالوں سے پھینکا گیا فضلاء دفن کر کے خراب کر دی ہے-مرغیوں کی باقیات –اور طرح طرح کے کیمیکل کے فضلات ڈال کر اس کی حالت خراب کر دی ہے-
تابکاری ٖفضلہ بھی ہما رے پاس کافی زیادہ موجود ہے – ہم بہت عرصے سے اٹامک انرجی کے شعبہ میں کام کر رہے ہیں اور تابکاری کا فضلہ ٹھکانے لگانے کا کام بہت مشکل ہے مگر چونکہ ہم بہت سے ملکوں کے ساتھ معاہدوں کے پابند ہیں اس لیئے اس کی باقیات کو ہم بہت مناسب طریقہ سے ڈسپوز آف کرتے ہیں-
پچھلے کئی سال سے ہم حرارت کی آلودگی کا شکار ہیں – گلوبل وارمینگ پوری دنیا کا مسئلہ ہے –جب بھی آپ توانائی کا استعمال کرتے ہیں تو حرارت پیدا ہوتی ہے – گاڑیوں کے انجن کی حرارت اور کنکریٹ سے بنے ہمارے سٹریکچر بھی حرارت کی آلودگی کا سبب بنتے ہیں –
سڑک پہ لگے بل بورڈ اور اشتہارات دیکھنے کی آلودگی میں آتے ہیں-بلکہ ہمارے ملک کی ہر دیوار پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا ہے یہ بصری آلودگی ہے –
پانی کی آلودگی کی سب سے بڑی مثال تو وہ آلودہ اور گندہ پانی ہے جو ہم صاف کیے بغیر اپنے ندی نالوں اور دریاؤں میں چھوڑ رہے ہیں –ہمیں ان تمام آلودگیوں کے متعلق قوم کو آگاہ کرنا چاہیئے – اور ان کے تدارک کے لیئے اقدامات کرنے چاہیئے-

/ Published posts: 14

میرا نام طارق منظور ملک ہے- محنت کرتا ہوں اور کام کے معیار کا خیال رکھتا ہوں-ڈی جی سکلز سے لکھنے کی سکل سیکھی ہے اور اپنے کالم لکھنے کا شوق ہے-

Facebook