خیر کے راستوں کی کثرت سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں

In اسلام
January 12, 2021

مفتی عبدالوحید ۔پی ایچ ڈی اسکالر اسلامک اسٹیڈیز
اہل ایمان کو اللہ رب العزت نے اس امر کی تعلیم دی ہے کہ اپنی زندگی کو خیر کے کاموں میں صرف کریں اور خیر میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں ۔ذیل میں اختصار کے ساتھ خیر کے راستوں کی کثرت کے حوالے کے حوالے سے قرآن وسنت کی تعلیم پیش کی جاری ہے جس پر عمل کرکے بندہ مومن اپنے رب کی رحمتوں کو سیٹ سکتا ہے ۔

1۔دین اسلام کی خاصیت یہ کہ اس میں اہل ایمان کے ہر نیک عمل (بشرطیکہ اخلاص نیت کی بنا کیا گیا ہو ) کو اہمیت دی گئی ہے اگر چہ اس کا عمل لوگوں سے مخفی ہو ،اسی امر کی طرف قرآن حکیم میں اشارہ کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے : {وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ} اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْراً يَرَهُ} پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔

۲۔فرائض وواجبات کے بعد اپنے نامہ اعمال کو بہتر بنانے کے لیے آپ ﷺ نے مختلف خیر کے راستوں کی طرف راہنمائی فرمائی کہ جن کو بندہ اپنے روز مرہ کے معمولات کا آسانی کے ساتھ حصہ بناسکتا ہے ۔ ذیل میں آپ ﷺ کی چند احادیث پیش کی جارہی ہیں جن میں بھلائی کے کاموں کی طرف راہنمائی کی گئی ہے ۔

1۔حضرت ابو ذر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کون سا عمل افضل ہے ؟ آپﷺ : ’’ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ ‘ ‘ کہا : میں نے( پھر ) پوچھا : کون سی گردن ( آزادکرنا ) افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’ جو اس کے مالکوں کی نظر میں زیادہ نفیس اور زیادہ قیمتی ہو ۔ ‘ ‘ کہا : میں نے پوچھا : اگر میں یہ کام نہ کر سکوں تو ؟ آپ نے فرمایا : ’’ کسی کاریگر کی مدد کرو یا کسی اناڑی کا کام ( خود ) کر دو ۔ ‘ ‘ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! آپ غور فرمائیں اگر میں ایسے کسی کام کی طاقت نہ رکھتا ہوں تو؟ آپ نے فرمایا : ’’ لوگوں سے اپنا شر روک لو ( انہیں تکلیف نہ پہنچاؤ ) یہ تمہاری طرف سے خود تمہارے لیے صدقہ ہے ۔


2حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا :’’ نیکی کے کسی بھی کام کو معمولی مت سمجھو ، خواہ تم اپنے بھائی کو خندہ پیشانی سے ملو ۔

‘‘
3۔حضرت ابو زر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا : صبح کو تم میں سے ہر ایک شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے ۔ پس ہر ایک تسبیح ( ایک دفعہ سبحا ن الله کہنا ) صدقہ ہے ۔ ہر ایک تمحید ( الحمد لله کہنا ) صدقہ ہے ، ہر ایک تہلیل ( لااله الا الله کہنا ) صدقہ ہے ہر ایک تکبیر ( الله اكبرکہنا ) بھی صدقہ ہے ۔ ( کسی کو ) نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور ( کسی کو ) برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے ۔ اور ان تمام امور کی جگہ دو رکعتیں جو انسان چاشت کے وقت پڑھتا ہے کفایت کرتی ہیں ۔

عزیزان گرامی ! زندگی بہت تیز رفتار کے ساتھ گزر رہی ہے اور ہم میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ کب کس کا وقت پورا ہوجائے ۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم اللہ رب العزت کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ برتیں ،اسی طرح بندوں کے حقوق کا بھی لحاظ رکھیں ،اور اپنی ذات کے حق کو بھی نظر انداز نہ کریں ۔اللہ رب العزت نے جو بھی صلاحیت عطافرمائی ہے، یا آپ جس شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں اپنے شعبہ میں رہتے ہوئے اللہ اور اس رسول ﷺ بتائے ہوئے طریقے کو اپنالیں تو اس کے نتیجے میں آپ کے عمل سے خیر پھیلے گا ۔اس لیے انفرادی واجتماعی سطح پر خیر کے کاموں فروغ دینا اہل ایمان کی ذمہ داری بنتی ہے ۔اس کے نتیجے میں اللہ رب العزت ہمیں اپنی رحمتوں اور برکتوں سے ہمکنار فرمائے گا ۔

اللہ رب العزت ہمیں خیر کے کاموں کو فروغ دینے اور شر کے امور سے اجتناب کرتے ہوئے اس کے آگے بند باندھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین