گوشت کا ایک ٹکڑا۔۔۔۔۔۔۔۔(شاہ حسین سواتی)

In اسلام
January 13, 2021

ساری دنیا کے اصول ہیں جب کسی چیز کا ایک حصہ اور جزء خراب یا بوسیدہ ہوجاتا ہے تو اس جزء اور حصے کو یا تو صاف کیا جاتا ہے یا کاٹ دیا جاتا ہے۔اگر ہم اس طرح نہیں کرتے تو یہ خراب حصہ مزید تباہی مچائے گا،اور اس چیز کو مکمل طور ناکارا بنائے گا۔اگر ہم بروقت تدارک کرتے ہیں اور خرابی پیدا کرنے کی وجوہات کو ڈھونڈنکالتے ہیں تو یہ ہماری کامیابی کی جانب پہلا اور اہم قدم ہوتا ہے ۔

بصورت دیگر ہم بڑا نقصان اٹھا چکے ہوتے ہیں۔بالکل اسی طرح ہمارے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہے تو سارا جسم سلامت،اور اس کی خرابی پورے جسم کی ہلاکت ہے۔گوشت کا ٹکڑا۔۔۔۔۔حدیث مبارک میں ارشاد ہے”ان فی الجسد مضغة اذا فسدت فسدالجسد کلہ و اذا صلحت صلح الجسد کلہ الا و ھی القلب۔ترجمہ۔۔یقینا جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ خراب ہوتا ہے تو پورے جسم میں فساد ہوتا ہے،اور جب وہ درست رہتا ہے تو پورا جسم محفوظ رہوتا ہے۔جسم روح اور دیگر چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ روح کا اثر دل پر پڑتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے بھی قرآن میں بار بار دل کو مخاطب کیا ہے ۔جب بھی اہم بات کا تذکرہ مقصود ہوتا ہے تو اللہ تعالی قلب کا لفظ لاتا ہے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ جسم میں اہم رول بھی دل ادا کرتا ہے۔تب پورا جسم بھی دل کا تابع اور فرمانبرادری کرتا ہے۔ دل کی بیماری۔۔۔۔۔چونکہ دل جسم میں بادشاہ کی حیثیت سے کام کرتا ہے جس طرح بادشاہ کے غلط فیصلوں سے ملک تباہی کے دھانے پہنچ جاتا ہے اسی طرح دل کی بیماری بھی جسم کو کھوکھلا کرتی ہے۔دل کا اثر تمام اجزاء پر ہوتا ہے جس طرح قرآن میں ارشاد ہے۔۔فی قلوبھم مرض۔۔کہ ان کافروں کے دلوں میں مرض ہے۔۔۔دل کی بیماری کو دوسرے گناہوں کا سبب قرار دیا ہے ۔ گناہ کا اثر۔۔۔۔۔۔جس طرح جسمانی امراض سے جسم متاثر ہوتا ہے اسی طرح گناہوں کی وجہ سے روحانی بیماریاں جنم لیتی ہیں

۔دل بھی گناہ کی وجہ سے بیمار ہوتا ہے اور پھر اس بیماری کا اثر اعمال پر بھی پڑتا ہے۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بعض اوقات ہم نیک کام کرنا چاہتے ہیں لیکن کر نہیں پاتے ایسا کیوں ہوتا ہے؟نماز میں دل نہیں لگتا،تلاوت میں سرور نہیں ہوتا،ذکر و اذکار میں جی نہیں لگتا۔ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟جب ہم گناہ کرنے لگتے ہیں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔کیونکہ گناہ کی وجہ سے دل کی قوت کمزور پڑتی ہے اور نیکی کی توفیق سلب ہو جاتی ہے ۔جس کی وجہ سے ہم سستی اور کاہلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔حدیث میں آتا ہے۔۔۔۔جب کوئی بندہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو شیطان اپنا چونچ دل میں مارتا ہے جس سے ایک کالا دھبہ دل پے لگ جاتا ہے جب کوئی توبہ کرتا ہے تو دھبہ ختم ہوجاتا ہے ورنہ دل دغدار رہتا ہے یہاں تک کہ انسان دوسرا گناہ کرے۔جب دوسرا گناہ کرتا ہے تو دھبہ مزید بڑھ جاتا ہے اور اسی طرح دل مکمل طور پر کالا ہوجاتا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ دل کی بیماری گناہ ہے اگر ہم گناہ کرنا نہیں چھوڑتے تو ہم مریض ہیں اور یہ ایسا مرض ہے جو سارے جسم میں فساد برپا کرتا ہے۔دل کی اصلاح۔۔۔۔۔۔۔جب دل ٹھیک ہوجاتا ہے تو باقی اعضاء بھی درست رہتے ہیں۔اب دل کی اصلاح کیسی ہوگی؟حدیث میں اس بیماری کا علاج بھی بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کے لیے ایک زنگ ہے اور دل کا زنگ گناہ ہے اور ذکر اس زنگ کو ختم کرتاہے۔ اسی طرح آپﷺ نے فرمایا کہ موت کی یاد اور تلات اس زنگ کو ختم کر دےگا۔جب بھی ہم نیکی کرتے ہیں تو دل کا زنگ اترنا شروع ہوجاتا ہے۔

اور ایک وقت آتا ہے جب ہمارے سارے اعضاء درست اور ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔تلاوت،نماز،ذکر،آخرت کی یاد،موت کا یقین ،اور توبہ وہ اعمال ہیں جن کی وجہ سے دل کا زنگ اتر جاتا ہے اور نیکی کرنے سے سکون آنا شروع ہوجاتا ہے۔اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحانی اصلاح ہو تو دل کو گناہوں کی نحوست سے بچانا ہوگا۔اورنیکی سے دل کی قوت کو بڑھانا پڑے گا۔ورنہ ہمارا جسم بھی فساد سے بھر جائے گا جو ایک دن ہمیں ہلاک کر دے گا۔شاہ حسین سواتی