والدین کی قدر کرنا سیکھے

In ادب
January 13, 2021

آج میں ایک ایسے واقعے کا ذکر کرنے جارہا ہوں جس کا میں عینی شاہد تو نہیں ہوں، البتہ اس میں میری حیثیت ایک راوی کی ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ ایک گاوں میں ایک شخص رہتا تھا۔ اس کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس نے بڑے بڑے ڈاکٹروں اور حکیموں سے علاج کروایا۔ دعائیں مانگی، اور آخر کار تقریبا 10 سال بعد اللہ نے اسے ایک بیٹا عطا کیا۔ ہمارے دوست نے بتایا کہ ایک روز وہ ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ لیے خوشی خوشی آرہا تھا۔ اور آکر اس نے بتایا کہ اللہ نے مجھے ایک بیٹے سے نوازا ہے اور اس نے مٹھائی دوستوں میں بانٹنا شروع کیا۔
پھر وقت گزرتا گیا اور کچھ سال بعد وہ اسی طرح ہاتھ میں مٹھائی لیے پھر سے آگیا۔ دوستوں نے پوچھا کہ ایک اور بچہ آگیا کیا؟ اس نے بتایا کہ دوسرا بچہ تو نہیں آیا۔ البتہ کئی سالوں سے ہمارے آلماری میں برتن صحیح سالم پڑے تھے کیوں کہ کوئی تھا ہی نہیں جو اپنی شرارتوں سے اسے توڑتا۔ اور اب میرے بیٹے نے ان برتنوں کو توڑا ہے۔ اسی خوشی میں چاہتا ہوں کہ مٹھائیاں بانٹ دوں۔ کہ آج میرا بیٹا اتنا بڑا ہو گیا کہ اس نے برتن توڑ دئیے۔
وقت گزر گیا اور بچہ جوان جبکہ اس کا جوان باپ بوڑھا ہوگیا۔ اور ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس بچے کے کچھ دوست آئے تھے۔ اس کا والد ان کے لیے ٹرے میں چائے لا رہا تھا کہ ہاتھ کانپنے سے اس کے ہاتھ سے وہ ٹرے گر گئی اور ٹوٹ گئی۔ وہ بیٹا اس پر چیخا اور کہا کہ نہیں لا سکتے تو کیوں لاتے ہو؟ اس پر اس کا باپ ہنسا اور اس نے بیٹے سے کہا کہ ذرا قریب آو اور اس کو وہ سب بتا دیا کہ کیسے جب اس نے برتن توڑے تھے تو اس کے بابا نے مٹھائیاں بانٹ دی تھیں۔
یہ ایک حقیقی واقعہ ہے۔ اس لیے ہمیں ایسی حرکتوں سے بچنا چاہئیے۔ اللہ ہمیں اپنے والدین کی خدمت اور ان کی قدر کرنا نصیب کریں۔

/ Published posts: 3

میرا نام نوررحمان آفریدی ہے۔ اس وقت میں ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے بی۔ ایس سافٹوئیر انجینئیرنگ کر رہا ہوں۔ رہائشی تعلق ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ سے ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن ہوں۔