پی ڈی ایم کی سیاست اور دو ہزار اکیس میں بدلتی ہوئی پاک فوج

In دیس پردیس کی خبریں
January 14, 2021

جب سے دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات ہوئے ہیں، پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔ کبھی کہتیں کہ عمران خان نے انتخابات چوری کیے تو کبھی الزام لگاتے کہ فوج نے عمران خان کو سلیکٹ کیا ہے۔ اپوزیشن نے اپنے اس احتجاج کو پراثر بنانے کے لیے پی ڈی ایم بنائی جسکی سربراہی مولانا فضل الرحمان کو سونپی۔ مولانا، مشرف دور میں تو پاک فوج کے بہت قریب تھے مگر گزشتہ انتخابات کے بعد شدید غصے میں ہیں کیونکہ انکا مؤقف ہے کہ انکے ساتھ بھی فوج نے دھاندلی کرائی ہے۔ پی ڈی ایم کی سربراہی ملنے کے بعد وہ مزید جارحانہ موڈ میں نظر آتے ہیں اور دھمکیاں دیتے کہ ہم جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کریں گے۔ پاکستانی میڈیا میں کچھ قیاس آرائیاں یہ بھی ہوئیں کہ پاک فوج کے ساتھ اپوزیشن کے بیک ڈور رابطے ہیں۔ یہ افواہیں اس وقت زیادہ گردش کرتی نظر آئیں جب مسلم لیگ فنکشنل کے محمد علی درانی نے جیل میں شہباز شریف سے ملاقات کی اور یہ کہا جانے لگا کہ درانی صاحب فوج کا پیغام لے کر گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر اور عملاً پارٹی کی فیصلہ کن شخصیت مریم نواز بھی جلسوں میں بارہا فوج کو الزام دیتی نظر آتی ہیں۔ اس تمام پس منظر کے ساتھ دو دن پہلے پاک فوج کے ترجمان نے میڈیا نمائندوں سے بات کی جس میں مختلف سوالات کیے گئے۔ بیک ڈور رابطوں کی خبروں کو میجر جنرل بابر افتخار نے واضح طور پر رد کیا اور کہا کہ فوج اپنا پیشہ وارانہ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے پنڈی آنے کی خبروں پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم مولانا صاحب کو چائے پانی پلائیں گے۔ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے ادارے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فوج نے حکومتِ وقت کے کہنے پر ایمانداری سے انتخابات کروائے۔اب اگر کسی کو اعتراض ہے تو پاکستان کے باقی ادارے موجود ہیں جہاں پر رجوع کیا جا سکتا ہے۔ فوج کے ترجمان کی اس پریس کانفرنس کے بعد پاکستانی اپوزیشن کو یہ جان لینا چاہیے کہ آج دو ہزار اکیس میں پاکستان کی فوج تبدیل ہو چکی ہے۔ آج کی پاکستانی فوج سیاست میں دلچسپی کی قائل نظر نہیں آ رہی۔ ڈان لیکس، نواز شریف اور مریم نواز کی اشتعال انگیزیوں پر بھی فوج نے انتہائی تعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ خطے کے سیکورٹی حالات بھی فوج کو پاکستانی سیاست سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ پاک فوج ہر صورت یہ چاہتی کہ اب پاکستان کی تمام سیاسی حکومتیں اپنا دور پورا کریں تاکہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو اور ملک معاشی طور پر بھی آگے بڑھے۔ ایسے میں اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ زبردستی فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹیں اور حکومت کی حمایت سے دستبردار ہونے والے مطالبے نہ کرے کیونکہ نوے کی دہائی میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے جسکی بہترین مثال بے نظیر بھٹو کی طرف سے مشرف کے بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے والے اقدام کی تائید تھی۔ پاکستانی جمہوریت اور ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ ہر آنے والی سیاسی حکومت اپنی مدت پوری کرے تاکہ ملکِ پاکستان اور جمہوریت آگے بڑھ سکیں۔