241 views 0 secs 0 comments

تعلیم سے نظراندازی ، نسلوں کی بربادی

In تعلیم
January 14, 2021

اکستان میں تعلیم آ ج تک وہ مقام حاصل ہی نہیں کر پائی جس کی وہ حقدار ہے۔ سب سے زیادہ اسی شعبے کو نظر انداز کیا گیا۔ تمام تر جدید تحقیقات کو پس پشت ڈال کے اگر کوئی بات اہم تھی تو گورنمنٹ لیول پہ ملازمت کا حصول اور پرائیویٹ لیول پہ کاروبار، اللہ بھلا کرے این جی اوز کا رہی سہی کسر اس نے پوری کر دی ویسے بھی ہم آ دھی تیتر آ دھی پٹیر قوم ثابت ہوئے ہیں اپنا کچھ اپنانے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ ہمارے ہاں وہی عظمت کی چوٹی پہ کھڑا پایا جاتا ہے جو باہر سے کامیابی کی سند لے کے آ تا ہے۔ اب تو بے چارے گلوکاروں اداکاروں پہ بھی دوسرے ممالک کی مہر لگی ہو تو وہ مانے ہوے ڈھونگی بن پاتے ہیں۔
تعلیم اور پھر تربیت ان کے فروغ کے لئے جو کاوشیں کرنی چاہیئے تھیں وہ آ غاز سفر سے ہی نہ کی گئیں ہم آ زادی کے بعد بھی آ ذاد نہ ہو سکے پہلی بیڑی جو آذادی رائے کی تھی وہ زبان پہ پڑی اور ہم انگلش انگلش کرتے کرتے اردو سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اب ہمارے اردو تو پلے پڑتی نہیں اور انگلش سے بھی ایسے نبرد آ زما ہیں کہ اچھے بھلے ذہین آ دمی کو بھی نکو بنا کے رکھ دیتے ہیں۔
کتابچہ بھی کتا- بچہ دکھائی دیتا ہے۔
مسئلہ کہاں ہے ؟ نصاب میں، اساتذہ میں، امتحانی سسٹم میں یا ان سب کو بنانے والوں میں ۔ یہ ایک قابل تحقیق حقیقت ہے کہ اوپر سے ایک پالیسی بن کے آ تی ہے اس میں سب پی ایچ ڈی مل کے بیٹھ جاتے ہیں۔ تمام تر زمینی حقائق کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور حکم حاکم کے مطابق سب مجبور و تابع دکھائی دیتے ہیں۔
دراصل یہ ذہنی غلامی بھی اسی انگریز کی چھوڑی ہوئی میراث ہے جب( اوپر سے آرڈر ) کی اصطلاح ایجاد ہوئی تھی ارے ! بھائی تب تو ہم غلام تھے آج تو آزادی کو بھی 72 برس بیت گئے۔ بلوغت کے بعد بڑھاپے کی دہلیز پہ پہنچ گئے مگر دل تو بچہ ہے جی ، کے مصداق ابھی بھی ہم بڑے عجیب بچپنے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سسٹم کو بدلنے کے لئے تھنکنگ ٹینک چاہئیں مگر ہمارے پاس ٹینک تو ہیں تھنکنگ کی اجازت نہیں ۔ ویسے بھی چلی ہے رسم یہاں نہ کوئی سر اٹھا کے چلے۔
اور ہم ٹہرے رسم و رواج کے پابند سو یہ رسم بھی سر آ نکھوں پہ۔ جھکے سر، بندھے لب ، جی حضور ، تابعدار کی عملی تفسیر
جہاں کسی نے سسٹم سے بغاوت کی وہیں سنگسار کر دیا گیا کیونکہ یہی چلن ہے یہی ہے رسم جہاں گیری ، کہیں زباں پہ پابندی کہیں سوچ پہ تالے۔
سٹوڈنٹس سنٹرڈ ایجوکیشن دیکھنی ہو تو دور دراز علاقوں کے ان سکولز میں جا کے ملاحظہ فرمائیں جہاں در و دیوار کی بھی زحمت نہیں فرمائی گئی برس ہا برس بیت گئے بنیادی ضروریات سے بھی محروم معاشرے سے ہم کیا امید رکھتے ہیں استاد کے اپنے مسئلے ہیں مگر ان سے پوچھتا کون ہے ؟ ان کو بھی اوپر سے آرڈر دیا جاتا ہے جو سر پر سے ہی گزر جاتا ہے جس قدر ٹرینگ کے لئے گورنمنٹ میں کوششیں کی جاتی ہیں اس سے آ دھی بھی پرائیویٹ اداروں کو میسر آ جاہیں تو کافی سے زیادہ بہتری دکھائی دی جا سکے مگر ٹرینگ میں کہیں بھی مانیٹرنگ کا وہ سسٹم نہیں رکھا جا سکا جو یہ چیک کر سکے کہ ان ٹرینگ کا حاصل کیا ہے۔ گلی گلی پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی کھل گئے مگر ان کے پیش نظر بھی آمدنی و اخراجات کی لا حاصل فہرست ہی رہی ۔ استاد آ سودہ نہیں تو کیا خاک پڑھائے گا اور جو آ سودہ ہو گئے ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔
اس سارے کھیل میں تربیت تو کہیں منہ چھپا کے سو گئی سو تربیت سے نابلد بچے بھی تعلیم کو زیور کی بجائے بیڑ یاں ہی سمجھ رہے ہیں
حاصل تحریر یہی ہے کہ جب ساری مشینری نا اہلوں کے پلے پڑ جائے تو چند ایک مفید پرزے بھی محض اپنا اپنا چکر پورا کر کے پینشن لے کے آ رام سے سو جاتے ہیں۔
شبانہ اشرف