316 views 0 secs 1 comments

کانٹے بو کر گلاب کھلنے کی امید کرنا بیکار ہے ۔

In ادب
January 17, 2021

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
اسّلامُ علیکُم !
اس نے جب بے بسی سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا تو اسے اپنے بیٹے میں اپنی جوانی کا وہ جلاد نظر آیا جو اپنے ماں باپ کو اسی طرح بے عزت کیا کرتا تھا ۔ وجہ کوئی بھی ہو اسے تو جیسے موقع چاہیے ہوتا تھا ۔ اور آج اس کےساتھ بھی یہی ہو رہا تھا ۔اس کے بیٹے نے آج پہلی بار اس سے بدتمیزی کی تھی اور یہ پہلی بار، آخری بار نہ تھی بلکہ یہ سلسلہ ابھی شروع ہوا تھا ابھی تو وہ سب کچھ ہونا باقی تھا جو اسنے اپنے ماں باپ کے ساتھ کیا تھا ۔
******************************************************
عامر اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ۔اس لیے انہوں نے کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہونے دی کبھی اسے کسی شرارت پر ڈانٹا نہیں بلکہ اگر کوی اس کی شکایت کرتا تو بھی شکایت کرنے والے کو ہی الزام دے دیا جاتا ۔ مگر یہ بےجا لاڈ پیار اور عامر کی تربیت میں کوتاہی ان کی بہت بڑی غلطی ثابت ہوا۔ جب انہیں اس بات کا احساس ہوا تب تک عامر کے دل سے ان کا احترام ختم ہو چکا تھا ۔وہ اپنے والدین کو نوکروں کی طرح سمجھنے لگا تھا جو اس کی ہر بات ماننے پر مجبور تھے چنانچہ اب وہ ان کے سمجھانے پر بھی نہ سمجھتا بلکہ پہلے ان سے پیار سے بات تو کر لیا کرتا تھا اب وہ بھی نہ کرتا جب بھی اسے کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے پہلے تو وہ انھیں غصّے سے دیکھ کر نظرانداز کر دیتا ۔پھر انہیں ذلیل بھی کرنے لگ گیا ۔ ایک دن عامر نے ایک دوست کی باتوں میں آ کر ایک بزنس شروع کیا ۔جس کے لیے اسے پیسوں کی ضرورت تھی جب اس نے اپنے باپ سے پیسے مانگے تو اس نے صاف انکار کر دیا جس پر عامر نے غصّے میں آ کر ماں باپ پر ظلم کرنا شروع کر دیا ۔ انہیں کمرے میں بند کر کے روز ان پر تشدد کرتا اور انہیں پیسے دینے پر مجبور کرتا جب اسے یقین ہو گیا کے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس نے گھر کو بیچنے کا سوچا ۔زبردستی دستخط کروا کر والدین کو گھر سے نکال دیا ۔ وہ ایک ایدھی ہوم میں رہنے لگے ۔ماں کا دل تو اب بھی بیٹے کے لیے نرم تھا مگر باپ نے اپنے آخری وقت میں اسے بددعا دی تھی کہ اس کی اولاد بھی اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرے جیسا سلوک اس نے ہمارے ساتھ کیا ۔۔۔
باپ کی بددعا پوری ہو گئی۔عامر کا بیٹا بھی عامر کی طرح سنگدل تھا اس نے بیوی کی باتوں میں آکر عامر اور اپنی ماں کو گھر سے نکال دیا۔
عامر اور اس کی بیوی آج سڑک کنارے کھڑے کسی ایسی جگہ کو ڈھونڈ رہے تھے جہاں انہیں سر چھپانے کی جگہ مل سکے ۔ کیونکہ ان کی اپنی چھت تو ان کے اپنے ہی بیٹے نے چھین لی تھی۔
اس واقعے کو پڑھ کر سب کو سمجھ آجانی چاہیے کہ اولاد سے محبت اپنی جگہ لیکن کبھی بھی ان کی غلطیوں پر ان کی حوصلہ افزای نہیں کرنی چاہیے ۔ کیونکہ اگر ماں باپ کی وقعت اولاد کی نظروں میں حقیر ہوجائے تو کبھی کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے۔
اور جو اپنے ماں باپ سے برا سلوک روا رکھے گا وہ کل کو عامر کی طرح اپنی اولاد میں اپنا عکس دیکھے گا۔ کیونکہ کانٹے بونے والا کبھی گلاب نہیں چن سکتا ہاں اگر اسے اپنی غلطی کا بروقت احساس ہو جاے تو اور بات ہے۔
اختتام۔ ۔

One comment on “کانٹے بو کر گلاب کھلنے کی امید کرنا بیکار ہے ۔
Leave a Reply