وائٹ پیپر

In افسانے
January 18, 2021

تم وائٹ پیپر پر کیوں نہیں لکھتے؟میں تو ہمیشہ وائٹ پیپر پر لکھتا ہوں خود اردو بازار سے خرید کر لاتا ہوں۔”میں اصغر خان والے وائٹ پیپر کا کہہ رہا ہوں۔اصغر خان کاغذ کے کاروبار میں کیسے اآگئے، انہوں نے وائٹ پیپر نکال بھی لیا تو نواز شریف ایکسٹرا وائٹ پیپر نکال لے گا۔

مارشل لائ کے دنوں کی بات ہے ڈینٹل ڈاکٹر کے کلینکوں پر سیاست دانوں کا بڑارش رہتا کہ وہ واحد شخص تھا جو انہیں کہتا “منہ کھولیں”۔۔۔۔۔۔ان دنوں ایک ڈسپنسر بھاگتا بھاگتا اس ڈاکٹر کے پاس آیا اور کہا”سر!عجب ہوگیا کہ اس دور میں بھی ایسا مریض آیا ہے جس کا منہ بند نہیں ہوتا۔”ڈاکٹر نے کہا”گھبرانے کی کوئی بات نہیں وہ اصغر خان ہوگا۔”لفظ لیڈر اس وقت نہیں بنتا جب تک اس میں ڈر نہ آئےاور وہ لیڈر جو ڈرکے بغیر اسے اصغر خان کہتے ہیں۔خود کو ریٹائر ائیر مارشل لکھتا ہےمگر اس کو ملنے کے بعد لگتا ہے کہ ریٹائر صرف ائیر ہوتی ہے مارشل نہیں ۔وہ ہواباز ہے جسے جتنے حادثے پیش آئے۔پی این اے،ایم آرڈی اور پی ڈی اے اتنے مظبوط اتحاد بنائے کہ پوری اے بی سی ختم کر دی۔جس دروازے پرPULLلکھا ہو،اسےPUSHسے کھولتا ہے۔یہاں مراد پل سے مراد سہالے کاپل نہیں۔

ہمارے ہاں سیاست میں لوگ وردی اتار کر کم ہی آتے ہیں کیونکہ کہتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک دفعہ فوجی کو شیر کھا گیا اس کی وجہ جاننے کیلئے ایک کمیٹی بنا دیا گئی جس نے اپنی رپورٹ میں جو وجہ بتائی وہ یہ تھی اسے اس لئے شیر کھا گیا کہ وہ سادہ کپڑوں میں تھا مگر یہ سادہ کپڑوں میں سیاست میں آیا اور شیر کو کھا گیا۔طبیعت ابھی ایسی کہ اگر وہ محمود غزنوی ہوتا تو ستر ہواں ہوائی حملہ کرتا باقی سولہ بعد میں۔ذہن ایسا کہ جیسے ایک بار دیکھ لے کئی سال بعد بھی پہچان لیتا ہے بلکہ جسے پہلے نہ بھی دیکھا ہوا سے بھی دیکھ کر پہچان لیتا ہے۔اس کا حلقہ انتخاب ہمیشہ ہلکا انتخاب ہوتا ہے ۔جس کو الیکشن میں جتانا چاہے اس کے خلاف اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیتا ہے۔وعدے کا پکا مگر اس نوجوان کی طرح جس نے اپنی محبوبہ سے کہا کہ اگر میری شادی تم سے نہ ہوئی تو میں مرجائوں گا اور وہ سچ مچ ساٹھ سال کی عمر میں مر گیا۔سنا ہے کہا ایک جگہ تقریر کر رہے تھے کہ میں وطن کا سپاہی تھا،سپاہی ہوں،سپاہی رہوں گا تو پیچھے سے آواز آئی “ترقی نہ کرنا۔”

ان کا بیٹا عمر اصغر خان دراصل کم عمر اصغر خان ہے۔کوئی انہیں کہے اللہ آپ کی عمر دراز کرے تو سمجھتے ہیں بیٹے کے لمبے ہونے کی دعا دی ہے۔وہ سیاست کا F-16ہے۔یہاں اس سے مراد سولہ فیل نہیں۔منجمن فرینکن نے کہا ہے کہ جب سیاست دان کہتا ہے کہ”ہر سوچنے والا آدمی”تو اس سے مراد خود ہوتا ہے اور جب سیاست دان کہتا ہے کہ “ہر باشعور ووٹر”تو اس سے مراد وہ ووٹر ہوتا ہے جو اس کو ووٹ دیتا ہے اور یوں اصغر خان نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان میں باشعور ووٹر بہت کم ہیں۔بقول نوابزادہ نصراللہ خان”قائد استقلال”کو اللہ نے سب کچھ دیا ہے نہیں دیا تو استقلال نہیں دیا۔پارٹی کو یوں چلاتے ہیں جیسے ہوائی جہاز چلا رہے ہوں اگرچہ ان کا پہلے والا دبدبا دیا گیا ہے مگر پھر بھی وہ کسی بھی انتخابی حلقے سے الیکشن جیت سکتے ہیں بس ایک شرط ہے کہ وہ خود اپنے مخالف کھڑے ہوں۔

جہاں تک وائٹ پیپر کا تعلق ہے۔۔۔۔۔ایک بار امریکی فوج کے ڈپٹی کمانڈر جنرل کلارک کوریا میں لیکچر دے رہے تھے۔لیکچر دیتے ہوئے انہوں نے ایک لمبا لطیفہ سنانا شروع کریا ۔ترجمان نے صورت حال دیکھی تو ایک منٹ میں اس کا ترجمہ کیا اور سامعین قہقے لگا کر ہنسنے لگے۔جنرل کلارک بڑا پریشان ہوا،طویل لطیفہ ایک فقرے میں کیسے آگیا اور پھر لوگ اس پر اتنے ہنسے کیسے؟اس نے ترجمان سے پوچھا تو اس نے کہا”سر مجھے خدشہ تھا کہ لوگ اس طویل لطیفے سے محفوظ نہ ہو سکیں گے سو میں نے کہہ دیا کہ حضرات جنرل نے ابھی ابھی ایک لطیفہ سنایا ہے ازراہ کرم آپ سب لوگ ہنس دیں”سو حضرات ریٹائر ائیر مارشل اصغر خان نے نئے الیکشن کا مژدہ سنایا ہے۔اس لئے فوراً پتہ کریں کہ اس بار انہوں نے کس حلقے سے کھٹرے ہونا ہے اور وہاں سے آپ کاغزات نامزدگی جمع کر کے اپنی کامیابی یقینی بنائیں۔