اللہ کو پانا ہے

In اسلام
January 19, 2021

ہمیں قرآن کی عظمت کا احساس اس لئے نہیں ہے چونکہ متکلم کی عظمت کا ادراک نہیں ہے یعنی خود ذاتِ خدا کی عظمت کا ادراک نہیں ہے،جب خدا وند تبارک وتعالی کا تصور آتا ہے تو ہمارے ذہن میں کیا چیز آتی ہے؟ہمارے ذہن میں کیا حاصل ہوتا ہے؟بنام خدا کیا حقیقت آتی ہے؟آنکھوں کے سامنے،ذہن کے سامنے اور دل میں کیا تصور واحساس پیدا ہوتا ہے؟جب لفظ خدا سنتے ہیں تو یعنی چہ؟یا تو بالکل ایک مبہم اور مدہم سا خاکہ یعنی ذہن میں کچھ بھی نہیں آتا ہے،صرف نام آتا ہے اور کچھ بھی حقیقت ذہن میں نہیں ہے،

ہم نے خدا کو ثابت کیا ہے،دلیلوں سے خدا کو ثابت کیا ہے،ہم نے خدا کو پڑھا ہے،ہم نے خدا کو سمجھا ہے،درحالیکہ معصوم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ خدا سمجھنے کی چیز ہے،نہ پڑھنے کی چیز ہے،نہ کہنے کی چیز ہے بلکہ خدا پانے کی چیز ہے،خدا کو پائیں۔جو خدا کو پاتا ہے وہ عظمت کو درک کر سکتا ہے،جس نے پایا نہیں ہے اور فقط سنا ہوا اور پڑھا ہوا ہےتو تو اسے کیا معلوم کہ کس حقیقت سے میرا سرکار ہے؟قرآن نے بھی ہمیں اسی طرف متوجہ کیا ہے کہ آپ خدا کو اثبات نہ کرو،ہم دلیلیں دے کر کیا کرتے ہیں؟خداکوثابت کرتے ہیں حالانکہ خدا کو پانا ہے۔اس مطلب کی مزید وضاحت انشاء اللہ فصل ادب ہشتم کے حصہ اول میں کی جائے گی۔ابھی اجمالی طور پر یہ بات ذہن میں رکھیں کہ حقیقت اس وقت پائی جاتی ہے کہ جب انسان اس حقیقت کی طرف جاتاہے،اس حقیقت کی قربت اور جوار میں جاتا ہے ہم خدا کو پائیں،اپنے دائیں بائیں دیکھیں،سب سے پہلے اپنے اندر پائیں،خدانے فرمایا ہے کہ اگر مجھے پانا ہے تو میں کہاں ہوں؟

انا عند المنکسرۃ قلوبھم۔۔۔۔۔(۱۹)
میں ٹوٹے دل والوں کے پاس ہوں۔میں تمہارے دلوں کے اندر ہوں،

ونحن اقرب الیه من حبل الورید 0(۲۰)
اور ہم اس سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔

ان الله یحول بین المرء وقلبه۔۔۔۔(۲۱)
اللہ انسان اور کے دل کے درمیان حائل ہے۔۔۔۔۔

ونحن اقرب الیه منکم ولکن لا تبصروں 0(۲۲)
اور ہم تمہاری نسبت مرنے والے سے قریب ہیں مگر تم دیکھ نہیں سکتے ہو۔

خدا فرماتا ہے کہ تمہارے دلوں میں ہوں۔خدا تمہارے اندر ہے،اپنے اندر ہی خدا کو پاسکتے ہو،اگر اندر نہیں پاسکتے ہوتو خدا کو آفاق میں پاؤ لیکن اللہ کوپانا ہے،اس وقت انسان کو عظمت کا ادراک ہوتا ہے،البتہ ہمیشہ اپنی حد تک پاؤ،نہ اس حدتک کہ جتنی عظمت ہے کیونکہ کسی غیر خدا کے لئے ممکن نہیں ہے کہ عظمت خدا کو اس طرح سے پائے کہ جیسا اس کا حق بلکہ انسان اپنی ظرفیت،اپنی طاقت اور توانائی کی حد تک خدا کی عظمت کو پاسکتا ہے،عظمت کلام خدا بھی ایسے ہی ہے یعنی اپنی طاقت اور توانائی کی حد تک انسان عظمت کلام خدا کو ادراک کر سکتا ہے کہ اتنی جتنی عظمت کلام ہے،یہ ممکن نہیں ہے،انسان کوخضوع اس وقت حاصل ہوتا ہے کہ جب کلام خدا کے سامنے اس کی عظمت کا ادراک ہو۔۔۔

/ Published posts: 22

کی محمد سے وفا تو نے ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح وقلم تیرے ہیں

Facebook