قیام امن اورخاتمہ ظلم کی انجمن میں شرکت

In اسلام
January 18, 2021

عرب کا معاشرہ لڑاکا اور جنگجو قسم کا تھا- اس کے علاوہ غریب لوگوں پر ظلم زیادتی بڑے لوگوں کا وطیرہ تھا- ملک بھرمیں بدامنی، راستوں کا محفوظ نہ ہونا، مسافروں کا لٹ جانا ایک وطیرہ بن چکا تھا-

ایسی صورت حال میں مکہ کے ایک امیراور بااثر آدمی عاص بن وائل نے قبیلہ زبیر کے ایک اجنبی مسافر کا حق مار کر حرم کعبہ کوبھی نہ بخشاء تو حضوراکرم کے چچا حضرت زبیر بن عبدالمطلب کی تحریک اور ایماء پر قبیلہ تیم کے بزرگ عبداللہ بن جدعان کے گھر چند قبائل کے معززین اس مقصد میں غور کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے-حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ اس وقت بیس سال کے نوجوان تھے اور یہ عمرعام طور پر مزکورہ قسم کےقومی اور معاشرتی سنجیدہ مسائل و معالات میں شرکت کی نہیں ہوتی مگر اس کے باوجود امن و آشتی،صلح ومصالحت، انسانی ہمدردی اور مظلوموں کی حمایت و نصرت کے فطری جزبہ کے تحت جو آپﷺ کے اندر انگڑائیاں لے رہا تھا، آپ بھی اس میں شامل ہوئے-

1- اہل مکہ یا باہر سے آنے والے کسی بھی آدمی پر ظلم ہوگا تو ہم ہمیشہ اس کی حمایت میں ایک ہاتھ اورطا قت بن جائے جائیں گے-

2- ظالم کے خلاف یہ ہاتھ اس وقت تک اٹھا رہے گا جب تک کہ وہ مظلوم کا حق واپس نہ کر دے-

3- ہر اجنبی اور مسافر کی جان ومال کی حفاظت کریں گے-

اس معاہدہ کو (حلف الفضول) کے نام سے موسوم کیا گیا کیونکہ عہد قدیم میں بنوجرھم نے بھی اس قسم کا ایک معاہدہ کیا تھا اور جن تین آدمیوں نے اس معاہدہ کی تحریک پیش کی تھی اور اسے پروان چڑھایا تھا،کیونکہ اس معاہدہ کے بھی وہی مقاصد تھے، اس لئے اس کو بھی (حلف الفضول) کے نام سے شہرت ملی-جب یہ معاہدہ طے پاگیا تو سب مل کر عاص بن عائل کے گھر گئے اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ اس تاجر کا مال واپس کر دے – اب اسے مجال انکار نہ رہی تو اس نے مجبوری میں اس کا سارا مال واپس کر دیا-یہ معاہدہ رحمت عالمﷺ کی فطرت سلیمہ، امن پسند طبیعت اور انصاف پسند مزاج کے عین مطابق اور حضوراکرمﷺ کے غم خوارکی آوازتھا،میں عبداللہ بن جدعان کے گھر میں حاضر تھا جب (حلف الفضول) طے پایا- اس کے بدلے میں اگر مجھے کوئی سرخ اونٹ بھی دے تب بھی میں لینے کو تیار نہیں اور اس قسم کے معاہدہ کی دعوت اسلام میں بھی اگر مجھے کوئی دے تو اسے قبول کروں گا-