347 views 0 secs 0 comments

صرف جان پہچان والوں کو سلام کرنا، قیامت کی نشانی ہے ۔

In اسلام
January 20, 2021

*صرف جان پہچان یا اپنے لوگوں کو سلام کرنا، قیامت کی نشانی ہے *

ایک صحابی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ انسان مسجد کے پاس سے گذرے گا؛ لیکن مسجد میں نمازنہیں پڑھے گا اور وہ یہ کہ انسان صرف جان پہچان کے لوگوں کو سلام کرے گا۔

تشریح :-

اپ خود غور کریں ان دونوں علامتوں کے ظہور کا ٹائم اور زمانہ ہے یا نہیں کیا بعد میں آئے گا یا پھر آ ہی چکا ہے؟
دونوں قسم کے لوگ، آج معاشرہ میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، لوگ نماز سے بہت زیادہ غافل ہیں،یعنی %55 لوگ نماز سے غافل نظر آتے ہیں ۔ اور سلام پہلے تو کرتے ہی نہیں، اگر کرتے ہیں تو صرف ان لوگوں کو کرتے ہیں جن سے جان پہچان ہے ، یہ لمحۂ فکر یہ ہے، ایسے لوگوں کی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔
تاہم یہ بھی افسوس کے ساتھ کہنا اور لکھنا پڑرہا ہے دکھ بھی ہو رہا ہے کہ عام مسلمانوں نے اپنی وضع قطع،شکل و شبہات ، رہن سہن اورحلیہ اس قدر ایسا بنالیا ہے کہ ظاہر دیکھ کر،آپ ان کے بارےمیں فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ مسلمان ہیں، یا پھر کوئ اور ہے اور وضع میں نصاری، تمدن میں ہنود اور انہیں دیکھ کر عجیب سا لگتا ہے ۔

لہٰذا اگر کسی کے بارے میں کچھ بھی ایسے بات معلوم نہیں ہے کہ یہ مسلمان ہے یا نہیں اور ظاہری شکل وشبہات سے بھی مسلمان ہو نا معلوم نہ ہوتا ہو، تو سلام کا ترک، یعنی اس کو آپ کچھ اور نہیں کہہ سکتے کہ آپ اور مذہب کے ہو حدیث کا مصداق یہ نہیں؛ بلکہ آپ اس کو ہر حال میں سلام کر سکتے ہو ۔ اور کرنا چاہے ۔

لیکن اگر وضع قطع اسلامیہ نہ اور صورت مومنا نہ ہو؛ لیکن نام وشخصیت نامعلوم ہے، تب بھی سلام کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ سلام کرنا چاہے ہاں اگر آپ جانتے ہو کہ یہ فلاں فلاں ہیں تو پھر آپ کی مرضی ہے سلام کرے یا نہ کرئے
امام بخاری نے اپنی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں ایک باب باندھنا ہے حضرت فرما تے ہیں :

*باب من کرہ تسلیم الخاصۃ*

(یعنی اس باب کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کسی کو خاص کر کے سلام کہنے کو مکروہ کیا کہ صرف فلاں فلاں کو سلام کرونگا ) اور باب کے تحت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے، جو تفصیلی روایت ہے کہ ایک شخص نے انہیں یوں سلام کیا تھا: یعنی ایک شخص نے اسے یوں سلام کیا
علیکم السلام یا أبا عبد الرحمن اس کے بعد حضرت نے حضورﷺ کا ارشاد سنایا، جس کا ایک ٹکڑا یہ ہے
*بین یدي الساعۃ، تسلیم الخاصۃ*
کہ عوام الناس قیامت کے قریب، خاص لوگوں کو سلام کرینگے ۔یعنی خاص لوگوں سے مراد ایسے لوگ ہیں جن سے تم ہر ٹائم ملتے ہو وہ تمہارے دوست ہیں تو ہر حال میں انسان ان سے سلام کرئے گا لیکن ایسا نہیں چاہے بلکہ راستے پر ہر ایک سلام کرنا چاہے ۔