پی ڈی ایم کے مقاصد پر ایک نظر

In دیس پردیس کی خبریں
January 20, 2021

پی ڈی ایم کا ردِعمل
حکومت کے ڈھائی سال مکمل ہونے کے بعد اپوزیشن کی جماعتوں نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور حکومت کی کارکردگی پر سوال اٹھانے لگے ایسے میں اپوزیشن کی 11 جماعتوں نےفیصلہ کیا کہ اکٹھا ہو کر ہم اس حکومت کو ختم کریں تاکہ عوام کو وہ سستی چیزوں کی سہولتیں ملیں جو ملنی چاہیے، اور ان جماعتوں میں دو بڑی جماعتیں بھی شامل ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی ، یہ دونوں جماعتوں نے مل کر دوسری جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ اکٹھا کیا اور حکومت کے خلاف جلسہ اور جلوس نکالے اور اب بھی وہ ریلیاں نکال رہے ہیں۔ اور مختلف شہروں میں جا کر عوام کو موجودہ حکومت کی نا اہلی کا بتا رہے ہیں۔ ان جماعتوں کے حکمرانوں نے موجودہ حکومت اور خصوصی طور پر فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حالانکہ فوج تو اپنا کام پاکستان کی حفاظت اچھی طرح کر رہی ہے۔ اور مہنگائی کے بارے میں اور دوسری معاشی مسائل پر تقاریر کیں۔

موجودہ حکومت کے جواب
موجودہ حکومت کا بھی اس پر ردِعمل دیکھا انہوں نے مذمت کی کہ یہ پہلے کے جو حکمران بھی حکومت میں آئے تھے وہ سارے چور ہیں انہوں نے کرپشن کی اور منی لانڈرنگ کرکے ملک عزیز کا پیسہ لوٹا اور جائیدادیں بنائی، اور اب یہ عوام کو دوبارہ گمراہ کررہے ہیں۔ اور ہم تو انہیں کہہ رہے ہیں کہ جو بھی کوئی ہم سے حکومت کے مسائل اور اپوزیشن کے مسائل ہیں انہیں حل کرنے کے لیے ہم تیار ہیں۔ اور ملک عزیز کی ترقی و خوشحالی کیلئے کوشاں ہیں۔ ان مسائل پر یہ جماعتیں ہم سے بات کریں۔ لیکن اپوزیشن مخالف سمت چل رہی ہے۔ ایسا کرنے سے اپوزیشن انتشار پیدا کررہی ہے۔ ایسا کر کے وہ ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ہمارا بھی یہ ماننا ہے کہ مسائل بہت زیادہ ہیں۔ لیکن اپوزیشن کو چاہیے کہ ان کو حل کرنے کےلیے تجاویز پیش کریں۔ لیکن پی ڈی ایم چاہتی ہے کہ پہلے وزیراعظم استفیٰ دیں۔ پھر بات کریں گے۔ دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کا یہ منشور درست نہیں ہے۔ اگر کوئی الیکشن میں دھاندلی کا مسئلہ ہے تو وہ الیکشن کمشن کے پاس جائیں لیکن وہ ایسا نہیں کررہی اور اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور عوام کو گمراہ کررہی ہے لیکن پی ڈی ایم کو چاہیے کہ ملک میں انتشار پھیلانے کی بجائے مذاکرات کی طرف جائیں کیونکہ ایکسا کرنے سے ہی ہم اپنے ملک کے ہر مسائل کو بہتر کر سکتے ہیں۔