تماشا

In افسانے
January 21, 2021

تحریر:-رحیم حیدر
20 جنوری، 2021
تماشا….

حضرت شہباز قلندرؒ سرکار کہیں تشریف لے جا رہے تھے تو ایک شخص کو دیکھا جو ریچھ لیے جا رہا ہے۔ آپ سرکار(رح) نے اُس سے پوچھا تم کون ہو۔؟
تو اس نے جواب دیا میں قلندر ہوں۔اس دور میں ڈگڈگی کی آواز سے ریچھ کا رقص یا تماشہ دیکھانے والے کو بھی قلندر کہا جاتا تھا۔لیکن قلندر کا ایک معنی آزاد آدمی کے بھی ہیں۔

اب یہ بات کہاں تک سچ ہے کہ ایک ریچھ نچانے والے کو قلندر کہا جاتا تھا معلوم نہیں.لیکن قلندر کا حقیقیی معنی جو میری سمجھ میں آیا ہے وہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔یعنی کل جس کے اندر ہو یعنی جو آنے والے کل کے بارے میں جانتا ہو اُسے ’’قلندر‘‘ کہتے ہیں.
اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کے اللہ تعالی اپنے نیک اور پیارے بندوں اولیاؑ کرام کو ایسے کمالات عطا کر سکتا ہے.کہ وہ آگاہ کرسکتے ہیں آنے والے وقت کے بارے میں.

آپؒ نے جب اس ریچھ نچانے والے کی بات سُنی تو بے اختیار مسکرا دیے۔
یہ بات اُس ریچھ نچانے والے کو اچھی نہ لگی۔اور یوں تعجب سے کہنے لگا.
آپ کون ہیں۔۔؟

قلندر سرکار (رح) نے فرمایا میں بھی قلندر ہوں۔
وہ شخص کہنے لگا آپ قلندر کیسے ہوسکتے ہیں نہ تو آپ کے پاس ریچھ نہ ہی کچھ بجانے کے لیے سامان تو تماشہ کیسے دکھائیں گے۔؟
آپ (رح) نے فرمایا پہلے تم تماشا دکھاؤ پھر میں تماشا دکھاتا ہوں۔
ریچھ نچانے والے نے ڈگڈگی بجانی شروع کی اور ریچھ کھڑا ہو کر ناچنے لگا،اس نے کہا کہ اب آپ کی باری ہے۔
آپ سرکار (رح) دو درختوں کی شاخوں پر کھڑے ہو گئے اور اُس شخص سے فرمایا تم ان شاخوں کے نیچے سے گذر جاؤ مگر خیال رہے کہ تم نے صرف آگے چلتے جانا،اور واپس پیچھے کبھی مت آنا۔
جیسے ہی وہ نیچے سے گزرا جگہ اور ماحول ہی بدل گیا۔نہ وہ سورج کی گرمی نہ گرد آلود جہاں تک نظر دیکھے خوبصورت پہاڑ سبزا ہرے بھرے کھیت۔
نہ موسم گرمی نہ ٹھنڈک۔ ابھی یہ سوچ میں ہی تھا کہ میں کہاں آگیا ہوں.کہ اپنے سامنے دیکھا سپاہیوں کا عظیم و شان لشکر گھوڑوں پر سوار تیزی سے اسکی طرف آرہا ہے۔وہ گھبرا کر سوچنے لگا آج تو میری جان جائے گی۔

جب لشکر اُس کے پاس پہنچ کر رکا اور لشکر کا سپہ سالار آگے بڑھا اس سے پہلے وہ ریچھ نچانے والا کچھ کہتا ۔
لشکر کا سپہ سالار بولا: بادشاہ سلامت آپ کہاں کُھو گئے تھے۔؟ آپ کی سلطنت آپکا انتظار کر رہی ہے اور ملکہ عالیہ کارو رو کے برا حال ہے۔
اب وہ حیران و پریشان شاہی گھوڑے پر سوار ہو کر ساتھ چل دیا۔کہاں ریچھ نچانے والا اور کہاں شاہی گھوڑے پر سوار ہونا جب نصیب بدلتا ہے تو ایسا ہی ہوتا.
خیر جب محل پہنچا تو عظیم الشان امارت و حکومت کو دیکھ کرحیران ہوگیا۔محل کے اندر داخل ہی ہواتھا تو خوبصورت ملکہ شکوہ شکایت کرتی لپٹ گئی۔
کہاں رہ گئے تھے آپ ملکہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا.؟ریچھ نچانے والا سب کچھ بھول کر نہا دُھو کے بادشاہوں والا پہنوا پہن کر تخت پر آبیٹھا۔
اس بات کو سالوں گذر گئے۔اللہ نے بیٹے عطا کیے پھر شہزادے بڑے ہو گئے۔اور پھر عمر گزرتی گئی اور بڑھاپےآگیا.جسم سے طاقت ختم ہونے لگی یہاں تک کہ منہ کا ذائقہ بھی چلا گیا۔

ایک روز اپنی حکومت میں سمندر کے کنارے بیٹھے سوچنے لگا کہ آخر میرے ساتھ یہ ہوا کیا تھا۔
اُسی کی تلاش میں اُسی جگہ جا پہنچا جہاں پر عظیم و شان لشکر آیا تھا. تو کیا دیکھتا ہےوہ ہی درخت اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
سوچا چلو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے.اور اُسی درخت کے بیچ سے گزر گیا۔ ایک دم سے ماحول بدل گیا۔وہی وقت وہی جگہ سامنے آگئی اُسکا وہی ریچھ جیسے ڈگڈگی بجا کر لوگوں کو تماشا دیکھایا کرتا تھا.ویسے ہی پڑا ہے وہی گرمی تپش وہی گرد و آلود ہوا۔
پیچھے موڑ کر دیکھا تو حضرت لعل شہباذ قلندرؒ سرکار کھڑے تھے۔اس شخص کی حالت غیر ہو گئی بولا جناب میری حکومت میری ملکہ میرے شہزادے کہاں گئے۔۔؟
تو آپ (رح) نے فرمایا سب تماشہ تھا جو تم نے دیکھا۔
دوستو۔۔۔
یہ دنیا بھی کیسی تماشے سے کم نہیں یہاں ہر شخص اپنے حصے کا تماشا دیکھتا ہے اور واپس لوٹ جاتا ہے.
جیسے کچھ تھا ہی نہیں..