مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ?

In شوبز
January 21, 2021

دنیا میں ایسے لاکھوں لوگ موجود ہیں جو اللہ کی ذات کو نہیں مانتے ان کا کہنا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں بلکہ یہ اچانک ہونیوالے ایک دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اور یہ نظام بھی خودکار طریقے سے چل رہا ہے مگر اس نظرئیے کے برعکس دنیا میں ایک بھی ایسا انسان موجود نہیں جو موت سے انکار کرسکے ہر ایک اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک خاص وقت تک دنیا میں رہے گا اور ایک دن چپ چاپ اس دنیا کو چھوڑ جائے گا قصر مختصر یہ کہ خدا کی ذات کے منکر تو کافی ہیں لیکن موت سے انکار کرنے والا کوئی بھی اس کرہ ارضی پر موجود نہیں ہے۔

یہ دیپالپور کے معروف قبرستان کی حالت زار ہے۔ویسے تو یہاں پر زندہ لوگ سہولیات کو ترس رہے ہیں مُردوں کی فکر کون کرے گا لیکن پھر بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے تو آج تک یہ معلوم معلوم نہیں ہوسکا کہ ان قبرستانوں کی دیکھ بھال کس کی ذمہ داری ہوتی ہے کیوں کہ پہلے بھی کئی مرتبہ اس پر بات کرچکا ہوں مگر بھلا نقارے میں طوطی کی صدا کون سنتا ہے۔

یہ تو ایک مثال ہے ہر شہر اور ہر گاؤں میں موجود قبرستان کا کم و بیش یہی حال ہے اگرچہ اس میں خود عوام کا بھی قصور ہے کہ وہ ایسی حماقتوں سے باز رہے اور اپنے اردگرد اور خاص طور پر مساجد اور قبرستانوں میں صفائی ستھرائی کا خیال رکھے مگر اس کے باوجود انتظامیہ کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ انتظامیہ ہوتی ہی ایسی چیزوں کو سدھارنے کیلئے ہے اسے چاہئے کہ تمام قبرستانوں میں باقاعدہ ملازم رکھے جو اس کی صفائی ستھرائی کا معقول انتظام رکھیں اور جو لوگ اس کے باوجود قبرستانوں کو کوڑے کا ڈھیر بنائیں ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔

باقی ہمارے پیارے سیاسی نمائندگان کو ان “نان ایشوز” سے کیا غرض ہوسکتی ہے ان لوگوں نے کون سے ان کو ووٹ دینا ہوتے ہیں اور ہماری انتظامیہ کے تو کیا ہی کہنے ہیں۔ لیکن ناامید نہیں ہونا ہم اپنی سی کوشش کرتے رہیں گے آپ بھی اس آرٹیکل کو شیئر کر کے شہرخموشاں کے خاموش باسیوں کی آواز بن سکتے ہیں۔ہوسکتا ہے کسی کو یہ یاد آ جائے کہ ہم نے بھی مرنا ہے اور ایک دن سب عہدے مرتبے چھوڑ چھاڑ کر یہیں آن کر آباد ہونا ہے۔اور صرف آباد ہی نہیں ہونا بلکہ اپنے ہر اختیار اور عہدے کا حساب بھی یہیں پر ہوگا۔

/ Published posts: 2

میں ایک رائٹر ہوں اور عرصہ بارہ سال سے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر آرٹیکل لکھتا آ رہا ہوں۔

Facebook