ہاروت اور ماروت

In اسلام
January 22, 2021

ہاروت اور ماروت دو فرشتے ہیں حضرت ادریس علیہ السلام کے زمانے میں لوگ بہت بدکردار ہو گئے تھے لوگ جادو سیھکنے کے عمل کو جائز سمجتھے تھے اور اسے سیکھنے کی کوشش کرتے تھے تب ایک دن فرشتوں نے اللہ تعالی سے عرض کی کہ اے پروردگار انسان تیرے خلافت کے لائق نہیں ہے اسے خلافت سے ہٹا دیا جائے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کے انسان میں غصہ اور شہوت ہے اس لیے وہ زیادہ گناہ کرتا ہے-

اگرچہ فرشتوں کو دی گئی تو وہ بھی گناہ گار ہو جائیں گے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ ہم تو کبھی گناہ کے پاس نہیں جائیں گے اللہ نے حکم دیا کے تم اپنی جماعت میں سے کسی دو فرشتوں کو چن لوں تاکہ اس آزمائش کے لیے دنیا میں بھیجا جائے تو بہت پرہیزگار فرشتے ہاروت اور ماروت چن لیا گیا اور اللہ نے اس کو غصہ اور شہوت دے کر بابل کے شہر میں اتار دیا اور فرمایا کے دن کے وقت تم لوگ قاضی بن کر فیصلے کرو اور شام کو واپس آسمان پر آ جایا کرو ایک ماہ میں وہ بہت مشہور ہو گئے اور بہت سے مقدمے انا شروع ہوے ایک دن ظہرا نام کی ایک حسین عورت اپنے خاوند کے خلاف مقدمہ دائر کرنے ائ دونوں فرشتے اس عورت پر عاشق ہوگۓ اور بد عملی کی خواہش ظاہر کی جس پر عورت نے کہا کہ پہلے تمہیں میرے شوہر کو قتل کرنا ہوگا اور میرے بت کو سجدہ بھی کرنا ہوگا ان کی شرائط سن کر دونوں نے انکار کردیا عورت چلی گئی فرشتے ایک دن خود ان کے پاس چلے گئے عورت نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ اسم اعظم جانتے ہو اگر آپ اپنی خواہش پوری کرنا چاہتے ہو تو اس کے بدلے میں میرے شوہر کو قتل کرنا ہوگا میرے بت کو سجدہ کرنا ہوگا جس پر فرشتوں نے سوچا کہ اسم عظم تو اسرار الہی ہے اسے فاش نہیں کر سکتے چلو شراب پی لیتے ہیں –

جب انہوں نے شراب پی لیا وہ نشے میں مست ہو گئےتو عورت نے ان لوگوں سے اپنے بت کو سجدہ بھی کرایا اخر میں اپنے شوہر کو قتل بھی کروایا اور عورت نے اسم اعظم معلوم کرتے ہی اس کی صورت بدل گئی اور آسمان پر جا پہنچی اور اللہ تعالی نے اس کی روح کو زہرہ ستارے سے متصل کر دیا ہاروت اور ماروت جب نشے سے ہوش میں آگئےتو وہ اسم اعظم بھول چکے تھے اور اپنے کیے پر بہت شرمندہ تھے اللہ نے فرمایا انسان میری تجلی سے دور رہتا ہے اور اپ دونوں ہر شام حاضر بارگاہ ہوتے تھے پھر بھی گناہ کر بیٹھے یہ سن کر فرشتوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور انسانوں پر لعن طعن کرنے کے بجائے انہیں دعائے مغفرت کرنے لگے اور اللہ تعالی نے دونوں فرشتوں کو اختیار دیا کہ دنیاوی سزا دی جائے یا آخرت کی سزا قبول کرتے ہو انہوں نے سوچا کہ دنیاوی عذاب تو ایک دن ختم ہو جائے گا لیکن آخرت کا عذاب ختم نہیں ہوگا اور دونوں نے دنیاوی عزاب قبول کرلی اور دونوں کو بابل کے کنویں میں اوندھا لٹکا دیا ۔