مجرموں کے وکلاء اور کھڑک سنگھ کا فیصلہ

In دیس پردیس کی خبریں
January 22, 2021

آپ نے کھڑک سنگھ کا نام تو سنا ہوگا، اگر نہیں تویہ تو ضرور سنا ہوگا کہ “کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں”؟
کھڑک سنگھ کا شمار پٹیالہ کے بااثر شخصیات میں ہوتا تھا، وہ جاگیردار تھے اور پٹیالہ کے پنچائیت کے سر پنچ بھی تھے۔
اپنے معمولات سے تنگ آکر ایک دن اس نے اپنے بھانجے سے کہا کہ مجھے پٹیالہ کا سیشن جج لگوادے(اس وقت سیشن جج کی کرسی خالی تھی)۔ کھڑک سنگھ کے بھانجے چونکہ پٹیالہ کے مہاراجہ تھے۔ اور اس وقت کے وائسرائے کسی کو بھی سیشن جج لگواسکتے تھے۔ اس کے بھانجے نے وائسرائے کو چھٹی لکھی۔ اور کھڑک سنگھ وہ چھٹی لے کر وائسرائے کے ہاں پہنچ گئے۔
وائسرائے نے چھٹی پڑھی اور پوچھا کہ کیا نام ہے؟
کھڑک سنگھ! اس نے جواب دیا۔
پھر پوچھا: تعلیم؟
اس نے پھر وہی جواب دیا کہ کھڑک سنگھ۔
اب کھڑک سنگھ نے پوچھا: آپ نے مجھے سیشن جج لگوانا ہے یا سکول ماسٹر؟
وائسرائے نے کہا کہ مطلب قانون کے بارے میں معلوم ہے کچھ کہ بس ویسے؟
کھڑک سنگھ نے مونچوں کو تاو دیا اور بولے: ملزم کو دیکھ کر بھلے برے کا پتا لگا سکتا ہوں۔
وائسرائے نے سوچا، کون اس سے الجھے۔ یہ جانے اور اس کا سفارشی۔
اور اس کو سیشن جج لگوانے کا دستخط کر دیا۔ کھڑک سنگھ اب اپنے گاوں میں سیشن جج کے طور پر داخل ہوئے۔
اگلی صبح وہ کمرہ عدالت میں موجود تھے اور پہلا کیس جو اس کے پاس آیا، وہ قتل کا تھا۔
ایک طرف روتی ہوئی خاتون تھی اور دوسری طرف چار ملزمان۔ اسی اثنا میں ایک پولیس آفسر داخل ہوا۔ جج کو کچھ کاغذات دئے اور کہا کہ اس خاتون کا دعوی ہے کہ ان چار ملزمان نے اس کے شوہر کو قتل کیا ہے۔
کھڑک سنگھ نے ایک نظر سب کو دیکھا اور معاملہ بھانپ گئے۔ پھر عورت سے مخاطب ہوئے کہ تفصیل سے بتاو کے کیا ہوا تھا؟
عورت نے ساری تفصیل بتا دی۔ پھر ملزمان کی طرف غصے میں دیکھا اور کہا کہ بدمعاشوں آپ نے بندے کو مار دیا! ملزمان صفائیاں پیش کرنے لگے، ادھر کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھنا شروع کیا اچانک کالے کوٹ میں ملبوس ایک آدمی کھڑے ہوئے اور کہا:
می لارڈ یہ معاملہ بڑا پیچیدہ ہے۔ یہ زمین کا تنازعہ تھا اور مقتول اسی زمین پر پائے گئے تھے جو ملزمان کی ملکیت ہے۔
جج نے دریافت کیا: یہ کون ہے؟ پولیس آفسر نے کہا یہ ملزمان کے وکیل ہے۔ کھڑک سنگھ بولے۔ تو انہی کے آدمی ہے نہ جو ان کی طرف سے بول رہے۔ اور ایک سطری فیصلہ لکھنے لگے۔
اس نے فیصلے میں لکھا تھا کہ “چار قاتلوں اور ان کے ساتھ ان کے وکیل صفائی کو کل صبح صادق چوراہے پر لٹکا کر پھانسی دی جائے۔”
اس فیصلے کے بعد وہاں پر جرائم کا شرح کم ہوتا گیا۔ اور کسی نے بھی کسی مجرم کی وکالت نہیں کی۔ کیونکہ کھڑک سنگھ مجرموں کے ساتھ ان کے وکیلوں کو بھی سزا دیتے تھے۔ اور فوری انصاف فراہم کرتے تھے۔
اس میں ہمارے وکلاء اور ججوں کے لیے بڑا سبق ہے۔

/ Published posts: 3

میرا نام نوررحمان آفریدی ہے۔ اس وقت میں ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے بی۔ ایس سافٹوئیر انجینئیرنگ کر رہا ہوں۔ رہائشی تعلق ضلع خیبر کے تحصیل باڑہ سے ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن ہوں۔