قسمت میں بھی جدائی

In افسانے
January 25, 2021

؎ یہ میرے دل کی دعا ہے ، میرے مولا سن لے
ساری دنیا سے چھپا کر اسے میرا کردے قسمت کے آگے ہر انسان بے بس ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ قسمت کا لکھا ہوا انسان مٹا نہیں سکتا ۔ کیونکہ مقدر لاکھ کوشش کے باوجود بھی انےان کی کوشش کو ہرا دیتا ہے ۔ مقدر میں اگر بے وفائی لکھی ہوگی ، تو وفا کہا سے ملے گی ۔
؎ یوں تو ہر شخص بڑے ادب سے ملا
مگر جو بھی ملا اپنے ہی کام سے ملا

میرے والد بچپن میں ہی فوت ہو گۓ تھے ۔ میری والدہ کپڑے سلائ کر کے گھر کا خرچہ چلا رہی تھی ۔ میری تین بہنیں اور دو بھائی تھے ۔ والد جب فوت ہوۓ تو ہمارا ایک علیحدہ مکان بھی تھا ۔ بڑے بھائی کو تعلیم مکمل کر کے باہر جانے کا شوق تھہ ۔ لہذا اس نے بپنا شوق پورا کرنے کے لیے مکان بیچ دیا ۔ اور دبئی چلا گیا ۔ بھاغ گھر میں خرچہ بھیج رہے تھے ۔ اس لیے گھر کا خرچہ چل رہا تھا ۔ جس کی وجہ سے ہم بہن بھائی تعلیم مکمل کر رہے تھے ۔ ہمارے پڑوس میں میری خالہ کا گھر تھا ۔ ان کے دو بیٹے تھے ۔ یمارا روزانہ انا جانا رہتا تھا ۔ خالہ کے بڑے بیٹے کاشف سے میری بچپن سے ہی منگنی طے ہوگئی تھی ۔ میری والدہ کی خواہش تھی کہ تعلیم مکمل ہو جاۓ پھر میری شادی کرے گی ۔ ابھی میں بی ۔اے میں ہی تھی کہ ایک دن دبئی سے فون آیا کہ بھائی کا ایکسیڈینٹ میں انتقال ہوگیا ہے ۔ ہمارے تو جیسے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو ۔

گھر کے حالات پھر سے بکھر گے ۔ اب مزید تعلیم حاصل کرنا ناممکن تھا ۔ بھائی کے جانے کے بعد اب بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی ۔ اس لیے ساری ذمہ داری میرے اوپر تھی ۔ گھر کے حالات کی وجہ سے میں نے نوکری کی تلاش شروع کر دی ۔ کاسف کو بڑے بنک میں نوکری مل گئی تھی ۔ تو خالہ کے حالات مزید بہتر ہوگۓ توے ۔ میری والدہ نے کاشف سے کہا اس کی نوکری کی ہوسکے تو بینک میں بات کرو ۔ کاشف نے مجھے بنک میں نوکری دلوادی ۔ تو گھر کے حالات میں مزید بہتری ہوتی نظر آئی ۔ مگر حالات ابھی اتے اچھے نہیں تھے کہ میری شادی کی بات کی جاتی ۔ خالہ بار بار آئی کہ اب میرا بیٹا نوکری پر لگ گیا ہے تو شادی کر دی جاۓ ۔ والدہ حالات کے ہاتھوں مجبور تھی ۔ اور ابھی میرا بھی شادی کرنے کا ارادہ نہیں تھا ۔ کیونکہ میں اپنے گھر والوں کو ایسے حالات میں چھوڑ کر کیسے جا سکتی تھی ۔ بس خالہ جب بھی آئی مہلت مانگتی گئی ، یہاں تک کہ آٹھ سال کا عرصہ گزر گیا ۔ امی کہتی تھی کہ چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم مکمل ہو جاۓ تو تمھاری شادی کی تاریخ طے کرو گی ۔ مگر حالات تھے کی سنورنے کی بجاۓ بگڑ رہے تھے ۔ چھوٹی بہنوں کی تعلیم مکمل ہوئی تو ان دونوں نے اپنے لیے خود لڑکے پسند کیے ۔ اور شادی کر لی ۔
؎ پھر کہیں بھی پناہ نہیں ملتی

محبت جب بے پناہ ہو جاۓ خالہ جب دوبارہ تاریخ طے کرنے آئی تو والدہ نے کہا کہ کچھ مہلت اور دے دو ۔ بیٹا تعلیم مکمل کر کے کسی نوکری پر لگ جاۓ تو میرے گھر میں روزی روٹی کا کچھ آسرا ہو چاۓ گا ۔
؎ اگر تو وجہ نہ پوچھے تو اک بات کہوں
بن تیرے اب ہم سے بھی جیا نہیں جاتا
تقریبا دو سال گزرنے کے بعد بھائ کو ایک دفتر میں نوکری مل گئی ۔ اب والدہ نے خالہ سے بات کی ۔ تو کاسف نے شادی کے لیے ٹال مٹول شروع کر دی ۔ کہ ابھی ہمیں کچھ عرھہ کا وقت چاہیے ۔ کاشف نے بینک سے نوکری چھوڑ دی تھی کیونکہ اسے اس سے اچھی نوکری مل گئی تھی ۔ اس وجہ سے اسے لاہور جانا پڑا ۔

بس اسی انتظار میں والدہ نے چھوٹے بھائی کی شادی کر دی ۔ مگر میری قسمت مجھے دھوکا دیتی چلی گئی ۔ والدہ کی طبعیت خراب رہنے لگی ۔ آخر کار والدہ بھی ساتھ چھوڑگئی ۔ اب تو میں بلکل اکیلی رہ گئی تھی ۔ حالہ نے جب کاےق سے شادی کی بات کی تو پتا چلا کہ اس نے رہاں صبا نام کی لڑکی جو اس کے دفتر میں کام کرتی تھی اس سے شادی کر لی ہے ۔ انھوں نے لاہور میں اپنا ذاتی مکان بھی لے لیا ہے ۔ ان کا ایک بچہ بھی ہے ۔ یہ بات مجھے بجلی کی طرح لگی ۔ کا گھر کے حالات ٹھیک کرتے کرتے زندگی گزر گي ۔ اور جس کا انتظار کیا وہ بھی میرا نہ رہا ۔ میری تو اب دنیا ہی اجڑ گئی تھی ۔ مجھے اپنا بلکل ہوش نہیں تھا جب قسمت میں جدائی ہوتو انسان کـھ نہیں کر سکتا ۔
؎ بے وجہ چھوڑ تو گۓ ہو
بس اتنا بتاؤ کہ سکون ملا کہ نہیں

/ Published posts: 18

میں ایک لکھاری ہوں

Facebook