ابراہم لنکن کون تھا

In دیس پردیس کی خبریں
January 27, 2021

اصل قومی ہیرو وہی ہوتے ہیں جو اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی قوم اپنے ملک کے لیے دنیا میں کچھ ایسا کام کر جاتے ہیں ،جس سے پوری قوم پورے ملک کو ان پر فخر ہوتا ہے۔مرنے کے زندہ بھی ایسے لوگ اپنی قوم اپنے ملک کے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ امریکہ کی سیاسی تاریخ میں سولہواں صدر منتخب ہونے والے ابراہم لنکن تھے۔ ابراہم لنکن 12 فروری 1809 کو ایک جوتے مرمت کرنے والے کے گھر آنکھیں کھولتا ہے۔جہنیں ہمارے معاشرے میں عام لفظوں میں موچی کہتے ہیں۔ جن کو ہمارے معاشرے میں کوئی اہمیت اور خاصیت نہیں سمجھا جاتا ایک گھٹیہ اور نچلے طبقے کے لوگ سمجھا جاتا ہے ۔

اگر ہم ابراہم لنکن کے بارے میں مزید بات کرے تو ،ابراہم لنکن پیشے کے لحاظ سے سیاستدان ،پوسٹ ماسٹر،اور وکیل کے ساتھ ایک عسکری خدمات میں فوجی افسر بھی تھے فوج میں کپتان کے عہدے پر رہ کر اپنے ملک کی خدمت بھی کر چکے تھے۔ ابراہم لنکن نے اپنے محنت اور شوق کے ساتھ قانون کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگے تھے،پاس کرنے کے بعد وہ وکالت کے پیشے میں کافی دلچسپی رکھتے تھے۔پھر اسی طرح اپنے کام کو جاری رکھتے ہوۓ ایک دن وہ امریکن کانگریس کا ایک رکن بن گے۔اس طرح اپنی محنت اور جہدو جہد کے ساتھ 1856 کو امریکا کی ایک سیاسی جماعت ریپبلک پارٹی میں شامل ہوگے۔ پھر 1860 میں امریکہ میں صدراتی انتخابات ہوۓ جس میں امریکہ کے سولہواں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ایک بار پھر 1864 کو صدراتی انتخابات ہوۓ جس میں دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگے۔ ابراہم لنکن کی ان تمام کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے کئی ایسے لوگ تھےجو ان کی کامیابیوں کو دیکھنا پسند نہ کرتے تھے اور ہر جگہ ہر مقام پر اپنا جلن پن ظاہر کرتے تھے ،ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب ابراہم لنکن پہلی مرتبہ صدر منتخب ہونے پر حلف تقریب میں بیٹھے ہوۓ ایک سینٹر نے اپنی جلن پن ظاہر کرتے ہوۓ بول دیا”صدر ابراہم لنکن آپ امریکہ کے نو منتخب صدر بننے جا رہے یہ یاد رکھنا آپ ایک موچی کے بیٹے ہو اور اسی کی بنائی ہوئی جوتی میں نے پہن رکھی ہے۔ان فقروں کو سن کر پورے حال میں بیٹھے لوگ زور سےمسکراے ہونے لگے۔

ابراہم لنکن اس کی یہ بات سن کر مُسکراتے ہوئے سیدھا ڈائس پر گے،اور اس چوہدری سینٹر سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا “پیارے سینٹر میں بلکل یہ جانتا ہوں کہ کے میرے والد صاحب ایک موچی ایک جوتے مرمت کرنے والا تھا،اپ کے اپ کے گھر والوں کے اور اس حال میں بیٹھے تمام سیاسی و سماجی شخصیات کی جوتوں کی مرمت میرے والد صاحب ہی کرتے رہے ہیں،میں اس بات ست منفق ہوں۔لیکن آپ نے کبھی اس بات پر توجہ دی ہے کہ اتنے بڑے امریکا میں تمام لوگ میرے والد صاحب سے ہی کیوں جوتے بنواتے،مرمت کرواتے تھے ؟کیا آپ نے غور کیا تھا کیوں؟ کیونکہ میرے والد صاحب ایمانداری دیانتداری اور محنت سے کام کرتے تھے،انہوں کے بناۓ جوتے محض جوتے ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ ان جوتوں میں اپنی دل و جان سے محبت شامل رکھتے تھے،اسی وجی سے کبھی ان کے بناۓ ہوۓ جوتا کا کلیم نہیں آیا تھا آج بھی اگر میرے والد صاحب کا بنایا ہوا جوتا تنگ کرے تو آپ مجھ سے شکایت کر سکتے ہو۔ میں بھی نیاء جوتا بنا سکتا ہو اور آپ کو بنا کر دے سکتا ہو،کونکہ میرے والد صاحب ایک ماہر اور عظیم موچی تھے،میرے والد جیسا پورے امریکا میں لاکھوں موچیوں میں سے کوئی کاریگر نہیں تھا۔مجھے ایک عظیم موچی کا بیٹاہونے پر اچھا محسوسں کرتا ہو۔

ابراہم لنکن نے 1863 میں کالے رنگ کے لوگوں کو اپنی اعلی صلاحیتوں سے آزاد زندگی گزارنے کا حق لے کر دیا۔ “کہ ایک انسان دوسرے انسان کا غلام ہونا ،انسانیت کی توہین ہے”. ابراہم لنکن نے نہ صرف انسانی حقوق کو فروغ دیا بلکہ اس دور میں امریکہ میں خانہ جنگی جیسے حالات میں بھی ثابت قدم رہے،اور جانہ جنگی کی شدت میں کم لاۓ ۔آپ کو یہ واضع کرواتا جاؤ یہ اس جنگ کا شمار خونی ترین خانہ جنگوں میں سر فہرستِ ہیں۔ ابراہم لنکن 15 اپریل 1865 کو امریکا کے شہر واشنگٹن میں ایک ڈرامہ تھیٹر میں ڈرامہ دیکھ رہے تھے کہ ایک اچانک پستول سے چلائی گی گولی نے ابراہم کو موقعے پر ہی مار دیا ۔جس کی موت سے امریکہ ایک عظیم لیڈر سے مرحوم ہوگی۔ متحدہ امریکا کے 5ڈالر کرنسی کے نوٹ پر ابراہم لنکن کی یاد میں آج بھی تصویر لگی ہوئی ہے ۔

ابراہم لنکن کے قتل میں ہونے والی کاروائی پر “دی کانسپریٹر”فلم بھی بنائی گی یہ فلم اسی تھیٹر میں جہاں ابراہم لنکن کو قتل گیا تھا پہلے وہی یہ فلم چلائی گی۔ ابراہم لنکن اپنے ملک کے باہر بھی کئی ایسے لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں ۔ان کے کہے ہوۓ اقوال آج بھی پوری دنیا کے لوگ پڑھتے ہیں ۔ابراہم لنکن ان چند لوگوں میں درج ہے، جن پر تصدیق شدہ ہزار سے زیادہ کتابیں لکھی جا چکی ہے۔ابراہم لنکن کے مہشور اقوال پوری دنیا میں آج بھی لوگ پڑھتے ہیں ۔

/ Published posts: 10

اسلام و علیکم میرا نام اویس رضا میں ایم اے ایجوکیشن کا اسٹوڈنٹ ہوں۔ مجھے شروع سے ہی اردو کالم،لکھنے کا شوق ۔