یہ امید ہی تو ہے

In ادب
January 28, 2021

جو ایک کسان کو اپنی بوئی گئی فصل سے ملنے والے پھل کے لیے سال بھر مشقت کرنے پر اکسائے رکھتی ہے۔جوایک طالب علم کو محنت کرنے پر رضامند کرتی ہے کہ وہ بہتر سے بہتر کارکردگی دکھا سکتاہے۔جو کسی مریض کو زندگی کا پیغام دیتی ہے جس سے وہ اپنی مرض کا علاج کرواتا ہے-جو ہم میں یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ ہم اپنے آ پ سے کہہ سکیں کہ ”ہاں ہم یہ کام کر سکتے ہیں“۔

جو کسی بے روز گار کو روز گار کی تلاش میں مایوسی کے باوجود متحرک رکھتی ہے۔جو ایک سپاہی کو جیت کا احساس دلاتی ہے جس سے و ہ اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لیے میدان میں اترتاہے۔الغرض دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی امید میں جی رہا ہے۔ ہر آنے والے دن سے بے شمار لوگوں کی لاتعداد امیدیں وابسطہ ہوتی ہیں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں وہ دن تمام لوگوں کی امیدیں کب پوری کرتاہے۔ پھر ایک نئے دن کا انتظار شروع ہو جاتاہے اور ہم پھر امید کرنے لگتے ہیں۔یعنی.امید ہمیشہ اچھی اور مثبت رکھومایوسی اکثر اس وقت ہی پیدا ہوتی ہے جب ہم امید تو رکھتے ہیں مگر وہ منفی قسم کی ہوتی ہے ۔ یعنی یہ سوچ لینا کہ کچھ غلط ہی ہوگا۔ ایسی امید ہمیں وقت سے پہلے ہار تسلیم کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس لیے امید ہمیشہ اچھاہی ہونے کی رکھو۔ ہمیشہ مثبت امید رکھو۔ اگر ہم اچھا ہونے کی اور مثبت امید رکھیں گے تو ہم میں کچھ مزید کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگا جو ہمارے اندر کے یقین کو پختہ کر دے گااور اس طرح ہم آخر کار کامیاب ہو ہی جائیں گے۔امید سے یقین اور یقین سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ قائم ہوتاہے

اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں ہو سکتا۔جب اللہ تمہیں کسی مشکل کے کنارے پر کھڑا کردے تواللہ پر پوری طرح اعتماد رکھو کہ دو چیزیں واقع ہو سکتی ہیں یا تو وہ جب تم گرنے والے ہوئے تو فوری تھام لے گا یا پھر تمہیں اڑنا ضرور سیکھا دے گا۔چونکہ امید تمہارے اندر سے اٹھنے والی سرگوشی ہوتی ہے جو ”شاید“ کی شکل میں ہوتی ہے۔ یعنی تم کو لگنے لگتا ہے کہ شاید تم حالات پر قابو پا لو گے تو بس ایسی مثبت والی امید کو کبھی کھونے مت دینا۔ محنت کرنا اور بس محنت کرنا اس امید کے ساتھ کہ تم ہی فتح یاب ہو گے۔

/ Published posts: 20

Teacher & Inspirational Story Writer

Facebook