وہ جو شامیں ہم نے گزار دیں | حافظ علی حسن شامی

In افسانے
January 31, 2021

تاریکیوں میں پوروئی گئی رات کسی پر بہت خوب ٹوٹی تھی یا پھر تاریکیوں کا اس سے بہت پرانا رشتہ تھا، کسی سے بچھڑ جانے کا دکھ اور تکلیف کیا ہوتی ہے، کسی سے ٹوٹ کر چاہنے کے بعد ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جانا کیا ہوتا ہے، کوئی اس سے پوچھے جو اکیلی ویران اسٹیشن پر بیٹھی زندگی کے گزرے لمحوں کا کفارہ ادا کررہی تھی، جسے وہ اپنے آنسوؤں سے غسل دے رہی تھی۔

بادل گرجے تو ایک لمحہ کو وہ چونکی کہ کوئی اس کو زندگی کی امید دلا رہا تھا، کوئی تھا جو ویرانیوں میں بھی اس کے ساتھ تھا، اس کے پاس تھا اور اس کے بلکل قریب تھا، کہیں دور تہجد کی اذان کی آواز آرہی تھی، جو بادلوں کی گرج میں پر سکون ہوا کی مانند اس کے موم سے دل پر اثر انداز ہو رہی تھی۔جس کو میں نے چاہا، جسے اپنی زندگی سمجھا، اپنا مان سمجھا اور اپنی محبت سمجھا وہ مجھ سسے بچھڑ کر کہیں دور مٹی تلے پر سکون نیند سو گیا اور میں بے سکون اس ویران اسٹیشن پر بیٹھی اس کی یادوں کے سہارے تنِ تنہا پڑی سوچ رہی ہوں کہ زمانے نے کس ظلم کی سزا دی ہے مجھے، اس کو چاہنے کی یا پھر مجھے اسے چھوڑنے کی، لیکن میں نے تو اسے نہیں چھوڑا، وہ تو خود مجھ کو چھوڑ کر چلا گیا، اس لمبی زندگی میں جہاں ہر قدم پر مجھے اس کی ضرورت تھی۔

عنایہ کا معصوم دل ٹوٹ چکا تھا، جوانی میں بیوہ ہوجانے کا دکھ کوئی اس سے پوچھے جس نے اپنی پوری زندگی ایک سہارے کے ساتھ بیتانے کی قسم کھا رکھی ہو، محبت کے چھن جانے کا درد کوئی اس سے پوچھے جس نے ہر لمحہ محبت کے جذبات میں گزارا ہو، زمانے کی ٹھوکروں کا نام کیا ہے کوئی اس معصوم سے پوچھے جس کو کبھی ٹھوکروں کا مطلب تک نہ پتا ہو۔گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہوچکی تھی اور اس کے بینچ کے قریب زمین پر پڑا معمولی سا گھڑا پانی کو اپنے اندر سمونے کی طاق نہ رکھتے ہوئے، پانی سے بھر کر اس کا حصہ بن چکا تھا، وہ اس گھڑے کو بھرتا اور پھر اس کا حصہ بنتا دیکھ رہی تھی اور ایک لمحہ کو اس کو اپنا دل بھی اسی طرح غموں سے بھرتا اور پھر اس کا حصہ بنتا محسوس ہوا، چند گھنٹے پہلے اس پر ٹوٹی قیامت پھر اس کو گھیرے میں لا چکی تھی۔

عنایہ میری جان میں تھوڑی دیر میں واپس آجاؤں گا، فرحان نے اپنا فون سائیڈ ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے کہا، وہ اس وقت بیڈ پر بیٹھی فکرمند ہورہی تھی۔رات کے دو بج رہے ہیں اور آپ اس وقت ڈیوٹی پر جارہے ہیں، اس نے فرحان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، جو اب اس کی طرف متوجہ تھا۔میں کہہ تو رہا ہوں جلد آجاؤں گا، بس چھوٹا سا کریمنل آپریشن ہے، اس نے عنایہ کے کندھوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔اچھا پھر میں آپ کا انتظار کروں گی دیر رات تک، اس نے معصوم لہجے میں کہا۔دیکھو اب تم سو گی نہیں تو تمہاری آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ جائیں گے، فرحان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔تو ٹھیک ہوگا نہ لوگ کہیں گے، اپنے شوہر کے انتظار میں دیکھو لڑکی کے آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ گئے، اس نے جوابً کہا تھا۔

زوردار بجلی کی گرج نے اس کو ڈرا دیا تھا، بجلی کہیں گری تھی اور بہت زور سے شاید اس کے کمزور آشیانے پر، ایک دفعہ پھر اس کی آنکھیں بھر آئیں اور آنسو موتیوں کی طرح اس کی آنکھوں سے رواں ہونے لگے، شاید مجھے یہ الفاظ نہیں بولنے چاہیے تھے “اپنے شوہر کے انتظار میں”، بلکل نہیں بولنے چاہیے تھے۔فون کی رِنگ بجی تھی جس نے اس سے اس کا سب کچھ چھین لیا تھا، اس کا پیار، اس کا مان اور اس کا سہارا شاید اس لمحے بولے گئے الفاظ اس کے سامنے کھڑے اپنے قبول ہوجانے کی نوید میں اس کے اردگرد گونج رہے تھے، اس کو اطلاع دی گئی تھی کہ ایس پی فرحان کریمنل آپریشن کے دوران گولی لگنے سے شہید ہوگئے ہیں۔ یہ اطلاع نہیں اعلان تھا کسی کے بچھڑ کر جانے کا، کسی کے ایک سفر سے دوسرے سفر پر جا نکلنے کا، کسی سے وعدہ توڑ کر روزِ ازل میں کیا وعدہ نبھانے کا، وہ اس کو تنہا چھوڑ کر اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا، لیکن اس کا سہارا واپس بلا لینے کے بعد اس نے عنایہ کو اپنا سہارا دیا تھا، جو کیا ہی خوب سہاراا تھا، جس کو وہ ابھی تک سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

منحوس پہلے اپنے ماں باپ کو کھا گئی اور اب میرے معصوم بچے کو، فرحان کی ماں نے خبر سنتے ہی ہوش و حواس کھوتے ہوئے عنایہ کو بازو سے پکڑ کر گھر بدر کردیا تھا، یہ بھی نہ سوچتے ہوئے کہ اس وقت رات کے پونے تین بج رہے ہیں اور وہ بیچاری جس پر پہلے ہی غموں اور دکھوں کا پہاڑ ٹوٹا تھا، اس اندھیری اور سرد رات میں کدھر پناہ تلاش کرے گی۔عنایہ جس وقت پیدا ہوئی تھی تو آنکھ کھولتے ہی اپنی ماں کی ممتا سے محروم کردی گئی تھی، اسس کی ماں ڈیلیوری کے چند لمحے بعد ہی فوت ہوگئی، عنایہ کے والد کو اس واقعہ کا شدید صدمہ پہنچا تھا، انہوں نے عنایہ کی پرورش کے لیے میڈ کا انتظام کیا لیکن ابھی عنایہ چار برس کی ہوئی تھی کہ ایک کار ایکسیڈنٹ میں اس کے والد اپنی جان گنوا بیٹھے، اس کے بعد عنایہ کی پرورش اس کی خالہ نے کی تھی اور پھر اپنے بیٹے فرحان کے اصرار پر عنایہ کی شادی اس سے کروا دی تھی۔

لیکن وہ آج اپنی آخری پناہ گاہ سے بھی محروم کردی گئی تھی اور اپنی محبت کے آخری دیدار سے بھی، یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں اسے بے یارو مددگار ظالم دنیا کے آسرے پر چھوڑ دیا تھا، جو اس معصوم کے لیے واقعی ہی بہت ظالم تھی، لیکن ایک ذات موجود تھی، جس نے اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑا تھا اور وہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ ویران اسٹیشن پر بیٹھی اپنی زندگی کے اگلے سفر کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اب میں کدھر جاؤں گی، واپسی کے تمام درودروازے تو اس کے اپنوں نے اس پر بند کردیے تھے، اچانک اسے ایک خیال آیا تھا۔

میں نے تمہارے نام پر گھر لیا ہے عنایہ بہت خوبصورت ہے یہ دیکھو، فرحان نے شادی کی سالگرہ پر اسے تحفہ دیا تھا، جسے وہ بعد میں تصویروں کی شکل میں عنایہ کو اپنے فون میں دکھا رہا تھا۔فرحان یہ واقعی بہت خوبصورت ہے، عنایہ بہت خوش ہوئی تھی۔لیکن آپ نے گھر لیا کہاں ہے، میرا مطلب کس جگہ پر، عنایہ نے فوراً سوال کیا تھا۔وہ ایک لمحہ کو اس کی گردن کے پاس جھکا تھا اور اس کے کان میں لمحہ بھر کو سرگوشی کی تھی۔وہ چونکی تھی اس کو لاوارث نہیں چھوڑا گیا تھا، اس کو بے آسرا نہیں کیا گیا تھا اور اس کو ظالم دنیا میں تنہا نہیں چھوڑا گیا تھا، روشنی کیا ہوتی ہے کوئی اس مسافر سے پوچھے جسے گہری وادیوں میں تاریکیوں کے بعد سامنے سے آتی ہلکی سی امید کی کرن نظر آئے، آغوش کیا ہوتی ہے کوئی اس شمع سے پوچھے جس کو تیز ہواؤں میں بجھ جانے کے خوف میں دو ہاتھوں کا سہارا مل گیا ہو اور رحمت کیا ہوتی ہے کوئی اس سے پوچھے جس کے تمام دروازے بند ہوجانے کے بعد دوبارہ کھول دیے گئے ہوں۔

عنایہ کی آنکھیں ایک دفعہ پھر بھر آئیں تھیں، لیکن اس دفعہ آنکھوں میں غم نہیں بلکہ شکر کے آ آنسوؤں تھے، کوئی تھا جو اس کے دل پر بار بار مرہم رکھ رہا تھا، کوئی تھا جو اس کے اکیلے پڑ جانے کے بعد بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑتا تھا، اس نے اسے اپنے اچھے لمحوں میں یاد رکھا تھا، اس کا شکر ادا کیا تھا، تو پھر وہ کیوں اس کو اتنی گہری کھائی میں جانے دیتا، جہاں اندھیرا اس کو اپنے اندر جذب کرلیتا اور وہ ہمیشہ کے لیے تاریکیوں کا حصہ بن جاتی، وہ احسان فراموش نہیں تھا، وہ جانتا تھا وفا کیسے نبھاتے ہیں، وہ جنتا تھا رحم کیسے کیا جاتا ہے، اس لیے وہ اپنی رحمتیں نازل فرما رہا تھا۔

اندھیری، سرد، خوفناک اور طویل رات ختم ہوچکی تھی اور صبح کی پہلی کرن میں عنایہ اپنی منزل کو روانہ ہوچکی تھی جہاں چند مشکلات تو تھیں، لیکن ایک نہایت خوبصورت اور مضبوط سہارا اس کے ساتھ موجود تھا، زندگی بھی کیا عجب مسافر ہے گزرتی ہی چلی جاتی ہے لیکن راستے کی گرد و غبار ساتھ لیے۔

میری زندگی کے جو ہمسفر وہی راستوں میں بدل گئے
جو جانِ دل سے تھے آشنا وہی سازشوں سے بھٹک گئے

کبھی یادِ یار بھی آئی تو، تو نہیں معلوم کہاں چل دیے
انہی راستوں پر ہی شاید جہاں جان نقش بھی مٹ گئے

وہ جو شامیں ہم نے گزار دیں خزاں کے سوکھے درخت تلے
کبھی آ بھی جاؤ صنم دید کو کہ بہار کے رُخ ہی بدل گئے

نہ ہی ہم نے تم سے گِلہ کیا نہ ہی زندگی کا سُکھ جیا
کئیں غم تھے دل میں چُھپا کے ہم جانِ جاں چلے گئے

(حافظ علی حسؔن شامی)

/ Published posts: 2

آپ سائبر سکیورٹی تجزیہ کار اور گریے ہیٹ ہیکر ہیں۔ آپ اپنی محققانہ اور متکلمانہ صلاحیت سے لوگوں کو خطرات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ آپ اردو ادب میں نثرنگاری اور شاعری بھی کرتے ہیں۔

Twitter
Facebook
Instagram