مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ۔۔۔۔ (آخری حصہ)

In اسلام
February 05, 2021

مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ۔۔۔۔ (آخری حصہ)
تحریر:فرزانہ خورشید

مولانا شمس تبریزؒ سے ملاقات۔۔۔۔۔
اپنے استاد سید برہان الدین محقق ترمذی کی وفات کے پانچ سال بعد تک آپ کی زندگی یوں ہی پڑھنے اور پڑھانے اور فتویٰ نویسی میں گزرتی رہی مگر جب آپ کی زندگی میں حضرت شمس تبریزؒ آئے تو آپؒ بلکل تبدیل ہوگئے،حضرت شمس تبریزؒ ایسے اللہ والوں میں تھے جو اللہ کی معرفت اور اس کو پہچاننے کے میدان میں اللہ سے قریب تر ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کی ایک نظر سے ہی انسانوں کی زندگیاں بدل جایا کرتی ہیں۔ اور حضرت شمس تبریز تو اپنے استادو مرشد شیخ ابو بکرؒ کے حکم پر جب انہوں نے کہا کہ “تم قونیہ جاؤ وہاں ایک نوجوان ہے اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت اور تڑپ ہے،جاؤ اس کے دل کو اور روشن کردو ” تو یہ حکم سنتے ہی آپؒ قونیہ آئے اور پھر مولانا جلال الدین کو تلاش کرتے، ان کے پاس پہنچ گئے ان سے ملاقات کے مختلف واقعات تاریخ کے اوراق میں ملتے ہیں۔

روحانیت کا سفر آغاز۔۔۔
حضرت شمس تبریزؒ کی خدا تعالی سے حقیقی محبت و تعلق سے آپ اس قدر متاثر ہوئے کہ آپؒ کے دل میں بھی خدا تعالیٰ کا قرب پانے اور معرفت حاصل کرنے کی جستجو و تڑپ بیدار ہو گئی حضرت شمس تبریز ؒکی رہنمائی میں آپؒ کے روحانی سفر کا آغاز ہوا‌۔‌ لکھنا پڑھنا سب ختم ہو گیا بس آپ شمس تبریز سے ہر گھڑی کچھ نہ کچھ سیکھتے رھتے، آپکے عقیدت مند اور مریدوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور وہ شمس تبریز کے خلاف ہوگئے یہ دیکھ کر شمس تبریز اچانک چلے گئے آپ کے جانے کے بعد آپؒ بے حد اداس ہوگۓ۔ آپ شاعری پسند کرنے لگے اور آپؒ کے فارسی اشعار میں اپنے استاد حضرت شمس تبریز سے والہانہ عشق و محبت اس قدر جھلکتی ہےاورآپکا نام یوں جابجاشامل ہےکہ بعض اوقات تو معلوم ہوتا ہےکہ یہ اشعار شمس تبریز نے خودلکھے ہیں۔

مثنوی مولانا روم۔۔۔۔۔
حضرت شمس تبریز کے چلے جانے کے بعد آپؒ لوگوں کی اصلاح اور ان کی تربیت میں زیادہ وقت گزارنے لگے آپ نے صلاح الدین زرکوب کو اپنا ساتھی اور جانشین مقرر کیا انہوں نے دس سال مولانا روم کی خدمت کی اور آپ کی وفات کے بعد چلپی حسام الدین ان کے ہر وقت کے ساتھی،رفیق اور خلیفہ بن گۓ۔ ان کے بے حد اصرار اور فرمائش پر ہی مولانا رومی نے اپنی مشہور مثنوی لکھی جو کہ چھ حصوں پر مشتمل ہے اس میں ہزاروں شعر ہیں۔ مثنوی میں آسان اور معنی خیز کہانیوں کے ذریعے مشکل باتوں کو یوں سمجھایا گیا ہے جو آج آٹھ سو سال گزر جانے کے بعد بھی بڑوں اور بچوں سمیت ہر ایک میں بےحد مقبول ہے ۔ہر کہانی میں دلچسپ سبق اور نتیجہ ہے جو سننے اور پڑھنے والوں کی سوچ کو بدل کرنیا رخ دیتا ہے۔

عادات و اخلاق۔۔۔۔
اپنی نوجوانی میں آپ بڑے شان سے رہتے مگر پھر سادہ زندگی گزارنے لگے،اچھے کپڑے اور اچھے کھانوں سےکوئی دلچسپی نہ رہی ،آپ کی خدمت میں ہزاروں تحائف آتے،مگر یہ سب تقسیم کر دیا کرتے تھے راتوں کوجاگتے اللہ کے سامنے رویا کرتے،قرآن کریم کی تلاوت کرتے ،دن کو روزہ رکھتے،رات کو نوافل پڑھا کرتے، رمضان کے علاوہ باقی مہینوں میں بھی دس ،پندرہ دن روزے سے ہوتے۔ نماز سے محبت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کبھی تو دو رکعت نفل نماز میں ہی پوری رات گزر جاتی ۔سردی کی ایک رات میں ایک بار اس قدر روئے کہ ان کے آنسو چہرے پر سردی کی شدت سے جم گۓ۔

بچوں پر شفیق تھے۔۔۔
آپ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے اور یہ محبت بھی آپ کی، حضور اقدس سے محبت اور لگاؤ کی ایک جھلک تھی اور سنتِ محمدؐ بھی۔ ایک دفعہ کچھ بچے مولانا روم سے ہاتھ ملانے لگے ان میں سے ایک بچے نے کہا مولانا جانا نہیں میں آتا ہوں آپ اس کے انتظار میں اس وقت تک کھڑے رہے جب تک وہ واپس نہ آیا،سارا میدان خالی ہو گیا،وہاں موجود ایک حضرت نے جب یہ ماجرا دیکھا تو کہنے لگا ایک بچے کی خاطر حضرت آپ نے اپنا وقت خراب کیا آپؒ نے فرمایا میں نے اپنا وقت خراب نہیں کیا میں نے سوچا حضور اقدسؐ بھی ہوتے تو ایسا ہی کرتے۔

وفات۔۔۔
جمادی الاخر۶۷۲ ( جس کی بناءپر ہی جمادی الاخر کے خاص مضامین میں یہ موضوع شاملِ خاص ہے) کی پانچ تاریخ کو جب آپؒ کے عقیدت مند آپؒ کے بستر کے گرد جمع تھے انہوں نے فرمایا کہ میرا وقتِ سفر آگیا ہے اب میں اپنے پیدا کرنے والے سے جا ملوں گا انہوں نے یہ شعر پڑھا اس کا مطلب یہ ہے کہ ” اگر تم مومن اور میٹھے یعنی اچھے آدمی ہو تو تمہاری موت بھی میٹھی اور مومنوں کی طرح ہوگی اور اگر تم کافر اور کڑوے آدمی ہو تو تمہاری موت بھی کڑوی اور کافرانہ ہوگی اس کے بعد آپؒ نے کلمہِ شہادت پڑھا اور آپ کی روح اپنے حقیقی مالک کی جانب پرواز کر گئی۔ قونیہ میں ہی آپ کو دفن کیا گیا۔ دنیا بھر سے آپ کے عقیدت مند آپ کی محبت میں آپکےمزارقونیہ جاتے ہیں۔ دنیا میں آپ کا بڑا نام ہے آپ کے کلام، تحریر، کہانیاں اور حکایت آج آٹھ سو سال گزر جانے کے بعد بھی کروڑوں دلوں اور زندگیوں کو بدل کر انکی روحانیت کو طاقت اور ان میں قرب الہی کی تڑپ پیدا کر کے سنتِ رسولﷺ سے جوڑ کر انکی روح کومنور کر رہی ہیں