ہر انسان کے سر میں ایک نہیں دو دماغ ہوتے ہیں

In عوام کی آواز
February 06, 2021

ایک نہیں دودماغ
ہر انسان کے سر میں ایک نہیں دو دماغ ہوتے ہیں ۔ یہ مذاق نہیں ہے بلکہ سائنس دان یہ بات ثابت کر چکے ہیں۔ گویا ہم عقلیں بھی ایک نہیں دو رکھتے ہیں۔ اب ایک عقل یا دماغ سے منسوب تمام محاورے اور ضرب المثال فرسودہ ہو جائیں گی۔ (سائنس اکثر ادب و روایات پر ظلم ڈھاتی رہتی ہے)۔ ہمارا دماغ دراصل دائیں اور بائیں دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں کا رابطہ محض عصبی ریشوں کی ایک پٹی کارپس کالوسم سے استوار ہے۔ یہ بالکل علیحدہ شناخت رکھتے ہیں ۔ دماغ کے عقب میں واقع کارپس کالوسم کو گویا دو پروسیسروں کے مابین “نیٹ ورک کنکشن” سمجھیے،ایسے پروسیسر جو انتہائی طاقت ور و تیز رفتار ہیں اورمختلف پروگرام چلاتے ہیں۔

قدرت کا عجوبہ دیکھئے کہ ہمارے بدن کے دائیں نصف حصے پر بائیاں دماغ جبکہ بائیں حصے پر دایاں دماغ حکمرانی کرتا ہے۔ یہ انہونی کیوں ارتقا پذیر ہوئی اس کے متعلق صرف خدا ہی جانتا ہے۔ بہرحال یہ اصول ہمارے کانوں آنکھوں حتی کہ ناک کے دونوں نتھنوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ امریکا کے ماہر عصبيات را جرمپیری پہلے شخص ہیں جنہوں نے انسان میں دو دماغ در یافت کیے ۔ ہوا یہ کہ ایک شخص پر شدید دورے پڑتے تھے۔ علاج کی تجویز ہوا کہ اس کا ایک حصہ دماغ نکال دیا جائے ورنہ وہ پاگل ہوجائے گا۔ یہ حصہ کارپس کالوسم تھا جسے بذریہ آپریشن علیحدہ کردیا گیا۔ سرجری کے بعد چند ہفتوں میں مریض نارمل ہو گیا ۔ لیکن پھر مختلف ٹینٹوں سے انکشاف ہوا کہ اس کے روز مرہ معمولات میں انقلابی تبدیلی آ چکی ہے۔ وہ یہ کہ دماغ کے دونوں حصے آزادانہ کام کرنے لگے تھے۔ گو اس کے چلنے پھرنے، بولنے اور کھانے پینے پر کوئی فرق نہیں پڑامگر روز مرہ کے کئی معمول اس انہونی سے بدل گئے۔ مثال کے طور پر مریض کی بائیں آنکھ اور ہاتھ مختلف چیزوں مثال کے طور پر پینسل کا نام تو پہچان لیتے مگر اسے یہ یاد نہ آتا کہ یہ کس کام آتی ہے اور جب مریض کی دائیں آنکھ اور ہاتھ کو کینسل دکھائی گئی تو وہ اسے استعمال کرنے لگا مگر اسے اس کا نام یاد نہیں آیا۔ اس قسم کے مزید تجربات سے انکشاف ہوا کہ خیالات کے مختلف عمل ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ دائیں اور بائیں دماغ میں جنم لے رہے ہیں۔ ان تجربات سے یہ ایک بات نمایاں ہو کر سامنے آئی کہ دماغ کے دونوں حصے سوچ، عمل کرنے اور کئی دیگر شعبوں میں انفرادی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس دریافت نے دنیائے میں سائنس میں ہل چل مچادی ۔

نیز اسی تحقیق پر راجر پیری کو نوبل انعام برائے طب ملا۔ بعدازاں جدید طب میں ترقی ہوئی تو دماغ کے متعلق حیرت انگیز انکشافات سامنے آنے لگے۔ حال ہی میں ایک تاریخی انکشاف رونما ہوا۔ ایک بچے پر مرگی کے شدید دورے پڑتے تھے۔ ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ بیماری کا مرکز دماغ کے دائیں حصے میں ہے۔ بچے کی جان بچانے کا واحد طریقہ یہی تھا کہ دماغ کا متاثرہ نصف حصہ نکال دیا جائے۔ والدین نے ہامی بھر لی تو بچے کا آپریشن ہوا اور اس کے دماغ کا دایاں حصہ نکال لیا گیا۔ ڈاکٹروں کو علم تھا کہ دماغ کا خالی حصہ جلد ہی ایک قسم کے مواد اسیریبیروسپائنل سے بھر جائے گا۔ مگر جب بچے کو ہوش آیا تو حسب توقع ان تمام فنکشز میں ہے قاعدگی پیدا ہوئی جو دائیں حصہ دماغ سے احکامات لیتے تھے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ گو معمول کی زندگی میں پلٹتے ہوئے بچے کو ایک سال لگ گیا مگر پھر وہ کامیابی سے روز مرہ کے کام کرنے لگا۔ گویا ایک سال میں بائیں حصہ دماغ نے خود نئی وضع میں ڈھالا اور ایک مکمل دماغ کی مانند کام کرنے لگا۔ یہ کوئی معمولی انکشاف نہیں بلکہ قدرت کے انتہائی عجیب وغریب کرشموں میں سے ایک ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ماہرین کے نزدیک دماغ میں ایک نصف حصہ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کسی باعث دونوں حصوں کا تال میل بگڑ جائے تو انسان پاگل ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بیشتر ذہنی امراض دائیں اور بائیں دماغ کی ہم آہنگی ختم ہونے سے ہی جنم لیتے ہیں۔ دماغ کے دونوں حصوں میں کتنا تال میل مدنظر رکھ کر درحقیقت تمام انسانوں میں مختلف شخصیت پیدا ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا میں بیشتر انسان دائیں ہاتھ سے کام کرتے اور دایاں حصہ جسم ہی زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ گویا معمول کی زندگی میں بائیں حصہ دماغ کو اپنے معاصر پر برتری حاصل ہے لیکن دایاں حصہ دماغ بھی کم اہم نہیں کیونکہ وہی تخلیق creativity) سے متعلق ہے۔عام طور پر ہمارے دماغ کے دونوں حصے مل جل کر کام کرتے ہیں تا ہم ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ وجہ یہ ہے کہ کبھی کبھی دونوں دماغ ایک دوسرے کے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہو پاتے یہی وجہ انسان کو ذہنی اور جسمانی طور پر پریشان کر دیتی ہے کیونکہ ہمارا شعور ایک حصہ دماغ کی بات ہی مان سکتا ہے۔ شعور کو تو ایک ہی کی بات ماننا ہوتی ہے۔ لہذا اس بات پر دونوں کے مابین کشمکش جنم لے لیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق عام حالات میں یہ جنگ بایاں حصہ دماغ ہی جیتتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں دماغ کے مابین سمجھوتوں کی وجہ سے ہی بیشتر انسان اپنی کامل ذہنی استعداد حاصل نہیں کر پاتے۔ بہت کم انسانوں میں دونوں دماغ ایسی زبردست ہم آہنگی ہی سے کام لیتے ہیں۔کہ وہ کامل ذہنی استعداد حاصل کر لیں ۔ یہی لوگ پھر ایجادات کرتے، شاہکار ادب، مصوری و موسیقی تخلیق کرتے اور اپنے اپنے شعبوں میں زبردست کارنامے سر انجام انجام دیتے ہیں۔ یوں کہ لیں کہ جس انسان کے دونوں دماغ میں انتہائی ہم آہنگی موجود ہوئی وہ عام انسانوں سے اعلی ذہنی صلاحیتیں رکھتا ہے۔
بیشتر لوگوں پر بائیں حصہ دماغ کی حکمرانی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ جذبات، خیالات، روحانیات اورتخلیقی قوتوں پر عقل، حقائق اور حکمت عملی کوترجیح دیتے ہیں۔