419 views 0 secs 0 comments

پنجاب کا انسانی ترقی میں کردار

In تاریخ
February 15, 2021

کچھ نام نہاد لبرل ہمیشہ پنجاب کو طعنہ دیتے ہیں کہ پنجاب نے کوئی ہیرو پیدا نہیں کیا اور پنجاب کا برصغیر میں کردار منفی رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے پنجاب نے نا صرف برصغیر بلکہ بین الاقوامی دنیا کی ترقی میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے ۔اگر ہم رسمی تعلیم کی بطور ادارہ بات کریں تو دنیا کی سب سے پہلی باقاعدہ یونیورسٹی ٹیکسلا پنجاب میں قائم ہوئی جس کاانچارج چانکیہ تھا جو ارسطو کے ہم پلہ فلسفی تھا جس کے بنائے اصولوں پر آج دنیا کی ریاستیں چل رہی ہیں.

اور دیسی لبرل پڑھے بغیر ارسطو کی گردان کرتے رہتے ہیں اگر ریاضی کے علم کی بات کریں تو اچاریہ پنگالا نے ریاضی میں صفر کو متعارف کروایا اور اگر ہندسوں کے ساتھ صفر نا لگائیں تو ان کی کوئی قدر نہیں رہتی جیسے کہ 1کے ساتھ صفر نا لگے تو 10نہیں بنتا اور 100کےساتھ دو صفر نا لگیں تو اس کی قدر 1کی ہی رہتی ہے سو نہیں بنتی ۔ اسی طرح اگر فلکیات کے علم کی بات کریں تو یہاں کے ماہرین فلکیات نے عیسوی کلینڈر سے 56سال پہلے دیسی کلینڈر بنالیا تھا جس میں کوئی جھول نہیں بلکہ پورے 365دن بنتے ہیں جس میں چار سال بعد نا تو کوئی لیپ کا سال یعنی فروری کا مہینہ ہرچارسال بعد 29دن کا ہوتا ہے اور نا ہی ہرسال بعد دس دن گھٹتے ہیں ۔ آج اگر عیسوی سال 2021 ہے تو دیسی کلینڈر 2077ہے مطلب یہاں کے ماہرین نے چھپن سال پہلے ہی کلینڈر بنا لیا تھا ۔

اگر انجینرنگ کی بات کریں تو ہڑپہ میں پانج ہزار سال پہلے سیوریج کا نظام بنالیا گیا تھا اور جب ساری دنیا میں پتھروں سے عمارتیں بنائی جاتی تھیں تو پنجاب کے باسیوں نے ہڑپہ کی تہذیب میں اینٹ پکا کر استعمال کرنا سیکھ لیا تھا ۔اگر دستکاری کی بات کریں تو چرخہ اور پھر کھڈی جس پر کپڑا تیار کیا جاتا تھا وہ بھی یہاں کے لوگ بنا چکے تھے جب ساری دنیا میں جانوروں کی کھال سے جسم ڈھانپا جاتا تھا اور ساری دنیا کا امیر طبقہ یہاں کا بنا ہوا کپڑا استعمال کرتا تھا ۔

پنجاب کی بے پناہ ترقی اس کے لٹنے کی وجہ بھی رہی ساری دنیا کے لٹیرے اس کو ہر سال لوٹ کر لے جاتے اور اپنے عوام کا استحصال کرتے ۔ اگر طب کی بات کریں تو خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے کے علاج کے لیے ایک طبیب یونان سے اور ایک یہاں سے بلایا یونانی طبیب نے کہا کہ آپکے بیٹے کا میرے پاس علاج نہیں جبکہ یہاں کے طبیب نے نا صرف اس کا علاج کیا بلکہ اس کا بیٹا صحت یاب بھی ہوا ۔ اور اگر سائنس کی بات کریں تو ڈاکٹر ہرگوبند کھرانہ رائے پور کبیر والا(خانیوال ) انہوں نے پروٹین پر اپنی تحقیق کی جو بعد میں کلوننگ اور ڈی این اے کی دریافت کا باعث بنی جس پر انہیں نوبل انعام سے نوازا گیا اسی طرح ڈاکٹر عبدالسلام جن کا تعلق جھنگ پنجاب سے تھا انہوں نے فزکس میں اپنی تحقیق کا لوہا منوایا اور انہیں بھی نوبل انعام سے نوازا گیا ۔

اگر آزادی کے ہیروز کی بات کریں تو دھرتی کے بیٹے جنہوں نے مادر وطن کے دشمنوں کو ایسا سبق سکھایا کہ دوباره انہوں نے کہیں اور بھی حملہ کرنے اور قبضہ کرنے کے بارے میں اپنے دل سے خیال بھی نکال دیا الگزینڈر (سکندر یونانی )نے جب پنجاب پر حملہ کیا تو دھرتی ماں کے سپوت مہاراجہ پورس نے اسے نا صرف روکا بلکہ یہاں سے سکندر زخمی ہوکر بھاگنے پر مجبور ہوا اور یونان جاکر مرگیا۔ رائے عبداللہ بھٹی مغل سلطنت سے ٹکرا گیا اور اکبر کو مجبور کردیا کہ وہ دہلی کو چھوڑ کر اپنا دارلحکومت لاہور منتقل کرنے پر مجبور ہوگیا ۔

بھگت سنگھ ،رائے احمدخان کھرل،کرتارسنگھ سرابھا،اودھم سنگھ، ملنگی،جبرو،مراد فتیانہ،نظام لوہار جیسے سورمے برطانوی سامراج کے لیے ایک دہشت کی علامت بنے رہے اور بلآخر یہاں سے برطانوی سامراج کا سورج غروب ہوگیا۔ یہاں کے صوفیاء کرام نے امن اور محبت کا ایسا درس دیا بابا گرونانک دیو جی کے ساتھ ہندو اور مسلمان بھی ان کے ساتھ محوسفر رہے بابا گرونانک دیو جی مہاراج نے تاریخ عالم میں پہلی بار زمین کی مالک اسے کاشت کرنے والے کو قرار دیا اور دنیا کا پہلا کمیون کرتار پور صاحب میں قائم کیا ۔شاہ حسین مادھولال بنے اور گولڈن ٹیمپل کی بنیاد حضرت میاں میر صاحب نے رکھی ۔گرو تیگ بہادر کو پیر سیف الدین نے پناہ دی جو ریاست کے باغی تھے۔ اسی طرح شاہ حسین نے عبداللہ بھٹی کو دفنایا جو ریاست کے خلاف ایک بغاوت تھی ۔

اگر ادب کی بات کریں تو یہاں کے پنجابی ادب کے ہم پلہ ادب اب تک کسی زبان میں تخلیق نہیں ہوا ۔فن اور آرٹ کی بات کریں تو نصرت فتح علی خان جو پنجابی تھے ان کے قد کا ابھی تک کوئی فنکار پیدا نہیں ہوا۔ امریش پوری ،راجیش کھنہ،منوج کمار جیسا بھی کوئی فنکار بھی باقی برصغیر نے پیدانہیں کیا اس لیے میری دیسی لبرل حضرات سے گذارش ہے مغرب کی محبت میں یہاں کے بڑے لوگوں کی خدمات کو فراموش مت کریں

/ Published posts: 20

استاد ،رائٹر،آرٹسٹ اور سماجی کارکن