517 views 0 secs 0 comments

اچھائی اور برائی میں فرق

In ادب
February 27, 2021

اچھائی ا اور برائی کی اگر پہچان نہ ہو توہی دونوں صفات جن کا ظہور نفس کی جبلتو ں سے ہوتا ہے دھوکہ ہے ،یہ دونوں ہی نفس کی فطرتیں ہیں ان کی تخلیق کا مقصد آزمائش انسان ہےیہ بھی ایک سکے کے دو رُخ ہیں اچھائی غالب آتی ہے چاہے برائی کتنی ہی طاقتوار کیوں نہ ہو اچھائی نے ہمیشہ غالب آکر ہی رہنا ہے اس میں غلبہ ہے برائی مٹ جانے کے لیے آئی ہے یہ بار بار ابھرتی ہے اور ڈوبتی ہے ۔

اگر برائی نہ ہو تو اچھائی کوئی شے نہیں برائی ایک ایسا زنگ ہے جو اچھائی کے شیشے کے پیچھے لگ کراسے آئینہ بناتا ہے۔ برائی کے سیاہ تسلسل میں اچھائی کا سفید براق نور چمکتا ہے ۔اچھائی کا مطلب ذمہ دار ہوجاناہے۔معاشرہ ذمہ داری کو اچھا تو سمجھتا ہے مگر اسے ایک بوجھ بھی محسوس ہوتی ہے۔سڑک کے کنارے ایک کتا پیاس کے مارے شدید گرمی میں جاں بلب ہے۔دو شخص گزرتے ہیں ایک کہتا ہے کہ میری ذمہ داری ہے میں رسپانس کے قابل ہوں۔۔۔اس نے پانی پلا دیا۔اچھائی پیدا ہوگئی۔دوسرے کا خیال ہے یہ میری ذمہ داری نہیں ہے۔ میں اسے پانی نہیں پلاتا۔وہ رسپانڈ نہیں کرتا۔وہ رسپانس کے قابل نہ نکلا۔برائی پیدا ہوگئی۔ کتے کو پانی پلادینا نیکی نہیں ہے۔یہی تو اچھائی ہے ۔

یہی انسانیت ہےاسکا مذہب سے کوئی تعلق نہ تھایہ تو انسان کے انسان ہونے کی نشانی ہے خالق کا احسان عظیم کہ اس نے اچھائی کو نیکی میں داخل کیا۔اس کا ثوا ب پیدا فرماکر انسان کو ترغیب دی۔ نیکی پر اترانا برائی ہے کیونکہ ہی تو انسانیت ہے ۔ہی کوئی بڑا کام نہیں کہ انسان کسی کے کام اجائے۔ہی تو عین فطرت ہے۔نیکی تو بہت بڑی شے ہے۔نیکی قربانی ہے ۔کتے کو پانی پلانے تک بات آسان ہے۔مزہ تب ہےجب اپنے نفس کی ترجیح قربان کرکے انسان کسی کا بھلا کرے۔ نیکی صرف یہ نہیں کہ کسی کو دعا دے۔اصل نیکی تو یہ ہےکہ جو گالی دے اسے بھی دعا دو۔یہ انسانیت کی معراج ہے۔اللہ کا فضل بہت بڑا ہےکہ اس نے ہر اچھائی کو نیکی میں داخل کرکےامت کے لیے بہانہء مغفرت پیدا کردیا اگر اللہ انسانیت کو جبر سے لازم کرتا اور نیکی کی،اصل نیکی کی ڈیمانڈ کرتا تو کس میں طاقت تھی کہ نیک بننے کی ہمت بھی کرسکتا۔نفس میں انسانیت سےاللہ کی مخلوق سےمحبت کے جذبے کو زندہ کرلیا جائے اور خدمت خلق کی جائےتو اللہ انسان کو اس نیکی کے طفیل اصل اور بڑی نیکیوں کی طرف لے جاتاہے۔انسان نفیس ترین طبع کا حامل ہےیہ کبھی برائی کو نہیں لپکنا چاہتا ۔شیطان بھی برائی کی ترغیب کبھی عین برائی کہہ کر نہیں دیتا۔

وہ ہمیشہ برائی کو ہمدردی کے لبادے میں لپیٹ کرلاتا ہے اور انسان کو دلیل سے راغب کرتاہے۔جیسے “آج نماز پڑھنے کو دل نہیں چاہتاکیونکہ تھکن بہت ہے۔کوئی بات نہیں اللہ معاف کرنے والا ہے۔”یا جیسے “رشوت لینا مجبوری ہے کیونکہ اخراجات کا بوجھ بہت زیادہ ہےاور باقی سب بھی تو یہی کرہے ہیں۔اللہ توبہ قبول کرنے والاہے۔ ایک ہی بات ہے اچھائی ہو یا برائی۔پیدا تب ہوتی ہے جب انسان اس کی طرف ردعمل کرتا ہےنفس کو تربیت ہونی چاہئیے کہ کا جواب دے اور برائی کو مسترد کرےیا خاموش رہے ۔ جس خیال کو نفس جواب دے گااسی میں ترقی پائے گا۔بس یہی ایک چوائس ہے۔بس اتنا ہی اختیار ہے۔ اس سے زیادہ نفس انسان کے بس میں کچھ نہیں ہے۔ اچھا ئی ہو یا برائی دونوں محض خیا ل ہیں۔نیات ہے اعمال تو نتیجہ ہیں۔عمل رونمائی ہے ۔اچھائی برائی باہری دنیا میں نمودار ہونے سے پہلے ذہن میں پیدا کئے جاتےہیں۔جس نفس نے نماز کا خیال اٹینڈ کرلیا اسے رسپانس کردیااُس کی نماز پیدا ہوگئی ۔نماز،جائے نماز سے پہلے نفس میں ادا ہوجاتی ہے۔جب ادا ہوجائےتو عمل کے طور پر عطا کردی جاتی ہےلکھ دی جاتی ہے۔ جو نفس اچھے خیال کو جواب نہیں دیتا اُس کا اچھا عمل پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ساری بات ترجیح کی ہے کہ اپ کس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔اگر دنیاداری میں ہیں تو دنیاداری کا عمل پیدا ہوگااگر اپ کی ترجیح خدا ہے تو اچھے اعمال عطا کردیئے جائیں گے۔

جس قدر ترجیح بڑھتی چلی جاتی ہے،جس جانب اس بڑھتی ترجیح کا رُح ہوتا جا تا ہے نفس کا کردار اور اُس کے اعمال اُسی حساب سے سنوارے جاتے ہیں۔ترجیح بگڑگئی تو مطلب نیت بگڑگئی۔نیت خراب ہوجانے کامطلب ہے نفس متاثر ہوگیا۔اعمال بھی بگاڑدئیے جائیں گے۔انسان کے لیے اگر سب سے بڑا ترجیح اگر اللہ ہو جائے تو اللہ کا سارا سسٹم اُس کا جاتا ہے۔لیکن اچانک نہیں اللہ کی فطرتِ مبارکہ میں اچانک کچھ بھی نہیں ہے۔انسان کے مقدر میں معجزہ نہیں۔انبیاء کی بات اور ہے اُن کا مقصد اور ہے۔انتہائی صبر وتحمل اور مستقل مزاجی سے اپنی ترجیحات کا تعین ازسرِ نو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے

آہستہ آہستہ ، غور وفکر سے نفس کی تر جیحات کو نئے سرے سےمرتب کر نا چاہیئے۔اللہ کسی صورت میں اولین ترجیح سے کم پر نہیں ملتا۔وہ بادشاہ ہےاُس بادشاہوں کے بادشاہ کا تخت دل میں سب سے اُنچا ہوگا تو وہ آئے گا۔جو نفس اللہ کو اپنی سب سے پہلے ترجیح بنالے اللہ اُس کو ترجیح دے دیتا ہے ۔جو ایک قدم اللہ کی طرف بڑھےوہ دس قدم اتاہے۔بندہ اگر اللہ کو اولین ترجیح بنائےتواللہ بےنیاز ہے اُسے کوئی حاجت نہیں۔اُس کے بندے سارے ہیں اُسے بندے بہت بندے کا اللہ ایک ہی ہے جب اللہ بندے کو کسی گنتی میںگن لیتا ہے جب رب بندے کوجانچتا ہے کمال تو تب ہوتاہے اللہ کی نظر میں آنے کی جس کو طلب ہو اُسے لازم ہے اللہ کو سب سے اہم رکھے،ٹاپ پر رکھے ،اچھائی کو قبول کرے اور برائی کو رد کردے۔اللہ بڑا قدردان ہے۔ والسلام

نیوز فلیکس 27 فروری 2021