میں اور میرا قلم

In تعلیم
March 01, 2021

????
میرا تعلق صوبہ پنجاب کے پسماندہ ضلع وہاڑی سے ہے ضلع وہاڑی ایک اعتبار سے جنوبی پنجاب میں اپنی خاص پہچان رکھتا ہے آجکل گلوبل وارمنگ کی بنا پر بدلتے موسمی حالات کے ساتھ ساتھ دریائے ستلج جو کہ جنوبی پنجاب کو سیراب کرتا ہے میں پانی کی قلت واقع ہوئ ہے جبکہ یہی محبتوں بھرا دریا ضلع وہاڑی کی زمینوں کو بھی زرخیز بناتا ہے لیکن اب پانی کی کمی کی وجہ سے یہاں زمین کی زرخیزی متاثر ہو رہی ہے کپاس ????کی فصل میرے علاقہ کی پہچان ہے.

اسی طرح وہاڑی میں لڈن مویشی منڈی ملک کی سب سے بڑی چند مویشی منڈیوں میں شمار ہوتی ہے یہاں کے لوگ کم پڑھے لکھے مگر ملنسار اور مہمان نواز ہیں آپ کہیں اور کسی اجنبی کے گھر چلے جائیں آپکو لوگ ویلکم کریں گے کھانا پیش کریں گے اور عزت سے نوازیں گے مگر اب یہاں تعلیم عام ہو رہی ہے اور یہاں کے بچے سکول، کالج جارہے ہیں جو کہ بہت بڑی خوشی کی بات ہے میرا والد???? بھی ایک مزارع کاشتکار تھا جو کہ انتہائی شریف اور اچھی شہرت کا حامل تھا والد صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ سوراخی(کھوجی) تھے اور قرب و جوار کا تمام علاقہ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا والد صاحب پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن پھر بھی پنچائت میں لوگ ان سے فیصلے کرواتے تھے
میرے والد صاحب کی اپنی کوئ زمین نہیں تھی ہمیشہ مستاجری پہ یا بطور مزارعہ کاشتکاری کرتے تھے اور مال مویشی پال رکھے تھے

والد صاحب کی دو شادیاں تھیں پہلی شادی سے ایک بیٹی ہوئ جو کہ جوان ہوئ بیاہ دی دوسری کوئ اولاد نہ ہوئ جس پر بڑھاپے میں سبھی خاندان خاص طور پر میری دادی اماں نے میرے والد صاحب کی زبردستی دوسری شادی کروا دی اور اس طرح کئ سالوں بعد میرے والد کے گھر بیٹا یعنی میں پیدا ہوا اور ایک بیٹی تولد ہوئی بعد ازاں والد صاحب کا بھائیوں سے جھگڑا ہو گیا اور وہ میرے ننھیال میں آکر آباد ہو گئے یہاں لڈن تا بورے والا روڈ پر ایک چھوٹی سی کریانہ کی دوکان ڈال لی.

اور خوشی خوشی رہنے لگ گئے جلد ہی یہاں پر بھی والد صاحب کی اچھی خاصی پہچان بن گئی اور علاقے کے لوگ ان سے ملنے آیا کرتے تھے
قدرت کی طرف سے لکھا گیا کبھی بدل نہیں سکتا ???? اور پھر ہوا کچھ یوں کہ والد صاحب کو کینسر جیسی موذی بیماری نے گھیر لیا جو کہ 1993 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے???????? مجھے تعلیم دلوانے کا انہیں بہت شوق تھا والدہ نے حالات کے جبر کا بہت مقابلہ کیا مگر جب میں 9th کلاس میں پہنچا تو وہ شدید بیمار ہو گئیں اب سارے گھر کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑی جس کی وجہ سے سکول چھوڑنا پڑا حالانکہ میں نے پرائمری اور مڈل کے امتحانات میں پورے ضلع میں سے ٹاپ کیا تھا .

سب سے پہلے میں نے 13/14 سال کی عمر میں 40 روپے روزانہ کی اجرت پر نوکری کرنی شروع کی جہاں میں دودھ والے برتن دھوتا تھا اور پھر زندگی نے کئی سال اسی طرح دوڑائے رکھا یہاں تک کہ بہن کی عمر شادی کرنے کی ہوگئ تو تمام برادری والوں نے کہا کہ اب تم شادی کرو اور بہن کی بھی شادی کرو جبکہ انہی دنوں میں نے پرائیویٹ میٹرک کے امتحانات بھی دیئے جو میں پاس کر گیا اسکے بعد بہن کی شادی کر دی اور اپنی بھی شادی ہو گئی لیکن نہ تو میں نے کتاب کو چھوڑا اور نہ ہی قلم سے رشتہ ٹوٹا آج الحمدللہ میں ایم اے کرنے جارہا ہوں جبکہ بی اے کے بعد بھی کر رہا ہوں مزید اسی دوران میں نے مختلف کئی ڈپلومہ جات اور کورسز بھی کئے ، میری اب بھی کوئی پراپرٹی جائیداد نہیں ہے اللہ پاک نے اچھی بیوی عطا کی ہے ماشاءاللہ 5 بچے ہیں جن میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ابھی تک اپنے گھر کی جگہ بھی نہیں ہے ایک کمرہ ہے جس میں میری پوری فیملی رہتی ہے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا .

نیوز فلیکس 01 مارچ 2021

/ Published posts: 1

سچ اور قلم کا ساتھ