620 views 0 secs 10 comments

شاعری

In ادب
December 26, 2020

شاعری(1)
تم میرے کسی طرح نہ ہوۓ
ورنہ اس دینا میں کیا نہیں ہوتا
شاعری(2)
تلاش مجھ کو نہ کر دشت رہبر میں
نگاہ دل سے دیکھ تیرے تیرے پاس ہوں
شاعری(3)
ہم تو بےوفا تھے نہ تو کیا ہوا
پر تم کو جو وفا اُ س وفا پے لعنت

10 comments on “شاعری
    Habibulah

    پاکستان کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور ایم ایس میو ہسپتال لاہور ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا کورونا کے شدید حملے سے متاثر ہوئے۔
    کس طرح صحتیابی ممکن ہوئی؟ ڈاکٹر فیاض احمد رانجھا کی ڈاکٹر عفان قیصر سے مفید معلومات پر مبنی گفتگو۔

    Rasheed Hasrat

    یہ خُوش گُمانی تھی کِردار جاندار ہُوں میں
    مگر یہ سچ ہے کہ بندہ گُناہگار ہُوں میں

    گوارا اہلِ چمن کو نہیں ہے میرا وجُود
    وُہ اِس لِیئے بھی کہ پُھولوں کے بِیچ خار ہُوں میں

    میں اُٹھ کے گاؤں سے آیا ہوں، شہر کے لوگو!
    کِسی کو راس نہ آیا ہُوں ناگوار ہُوں میں

    کِسی غرِیب کے تن کا اگر لِباس کہو
    تو ایسے دورِ گِرانی میں تار تار ہُوں میں

    ہتھیلی میری تو تقدِیر سے رکھی خالی
    گُماں دیا ہے کہ تقدِیر کا سوار ہُوں میں

    کِسی کا حق تھا خرِیدی ہے میں نے آسامی
    کئی دِنوں سے اِسی غم سے اشکبار ہُوں میں

    پُجاری پیٹ کے ہیں گر یہ آج کے حاکِم
    تو بیکسوں کی، غرِیبوں کی اِک پُکار ہوں میں

    دیا ہے ووٹ جو اِن بے ضمِیر لوگوں کو
    میں اپنے فعل پہ نادِم ہُوں، شرمسار ہُوں میں

    بِلکتا بچّوں کو فاقوں میں دیکھتا ہُوں رشِیدؔ
    مُجھے تو لگتا ہے اِس سب کا ذمہ دار ہُوں میں

    رشِید حسرتؔ

    رشید حسرتؔ

    غزل

    اِک کام تِرے ذِمّے نمٹا کے چلے جانا
    میں بیٹھا ہی رہ جاؤں تُم آ کے چلے جانا

    دِل کو ہے یہ خُوش فہمی کہ رسمِ وفا باقی
    ہے ضِد پہ اڑا اِس کو سمجھا کے چلے جانا

    سِیکھا ہے یہی ہم نے جو دِل کو پڑے بھاری
    اُس رُتبے کو عُہدے کو ٹُھکرا کے چلے جانا

    بِیمار پڑے ہو گے، بس حفظِ تقدّم کو
    دو ٹِیکے ہی لگنے ہیں لگوا کے چلے جانا

    بے وقت مُجھے بُوڑھا کر ڈالا، ابھی خُوش ہو
    جاں چھوڑ مِری اے دُکھ سجنا کے چلے جا، نا

    پلکوں پہ تِری آنسُو، کیا کام تُجھے دیں گے
    دامن میں اِنہیں رکھ کر رسواؔ کے چلے جانا

    جانا ہے تُمہیں جاؤ، مرضی ہے تُمہاری، پر
    کیا بُھول ہوئی اِتنا بتلا کے چلے جانا

    بارِش وہ بیاباں کی وہ ٹھہرا ہوا پانی
    پانی سے وہ ستُّو کا بس پھاکے چلے جانا

    ہیں چور یہاں منہ زور اور ڈاکو بڑے حسرتؔ
    پڑ جائیں کہیں دِل پر نا ڈاکے چلے جانا

    رشید حسرتؔ

    رشید حسرتؔ

    ذرا سی باپ مِرا کیا زمین چھوڑ گیا
    کثیر بچّے ہیں ازواج تین چھوڑ گیا

    مُجھے مِلے تو میں اُس نوجواں کو قتل کروں
    جو بد زباں کے لیئے نازنِین چھوڑ گیا

    رہا جو مُفت یہ حُجرہؔ دیا سجا کے اُسے
    مکاں کُشادہ تھا، لیکن مکین چھوڑ گیا

    پِلایا دودھ بھی اور ناز بھی اُٹھائے، مگر
    کمال سانپ  تھا جو آستین چھوڑ گیا

    پلٹ تو جانا ھے ھم سب کو ایک دن، یارو
    مگر وہ شخص جو یادیں حسین چھوڑ گیا

    میں اپنی تلخ مِزاجی پہ خُود ھُؤا حیراں
     گیا وہ شخص تو لہجہ متین چھوڑ گیا 

    ابھی کی حق نے عطا کی ھے، کل کی دیکھیں گے
    اب ایسی باتوں پہ کاہے یقین چھوڑ گیا؟

    وہ ایک جوگی جو ناگن کی کھوج میں آیا
    ھؤا کچھ ایسا کہ وہ اپنی بِین چھوڑ گیا

    صِلہ خلوص و عقیدت کا مانگ سکتا تھا
    جو ایک شخص زمیں پر جبین چھوڑ گیا

     خدا کا خوف نہیں، وائرس کا تھا خدشہ
    جسے بھی موقع ملا ھے وہ چِین چھوڑ گیا

    کوئی مزے سے مِرا کھیل دیکھتا تھا رشیدؔ
    مگر جو دیکھنے والا تھا سِین، چھوڑ گیا

    رشید حسرتؔ

    رشید حسرتؔ

    آسمانِ وقت پر روشن ستارا آپ کا
    نقص مجھ کو، فائدہ سارے کا سارا آپ کا

    دکھ ھؤا یہ جان کر، بیٹے الگ رہنے لگے
    کچھ بتاؤ، کس طرح اب ھے گزارا آپ کا؟

    باندھ لو رختِ سفر پھر سے مدینہ کے لیئے
    کچھ نہیں اس کے سوا بس اب تو چارہ آپ کا

    مالکن نے ہاتھ سے پکڑا، نکالا ڈانٹ کر
    شب، مِری بیٹھک پہ تھا نوکر بچارا آپ کا

    مجھ سے مت پوچھو کہ میں نے کس طرح کے غم سہے
    کس طرح دکھ جھیل کر قرضہ اُتارا آپ کا

    بھائی نے بے دخل مجھ کو کر دیا میراث سے
    اور یہ تک کہہ دیا، اس میں نہ پارا آپ کا۔

    ناشتے پہ پھر سے بیگم سے لڑائی ھو گئی؟
    مجھ پہ نکلا آج پھر غصہ وہ سارا آپ کا

    ماں منع کرتی رہی مجھ کو شراکت سے مگر 
    پڑ گیا سر پر مِرے آخر خسارا آپ کا

    روز کا معمول ھے حق تلفیاں کرنا رشیدؔ
    کب تلک آخر رہے گا، یہ اجارا آپ کا

    رشید حسرتؔ

    رشید حسرتؔ

    کہاں ہے پیار کی تھپکی، پذِیرائی کہاں ہے
    تبھی تو شاعری میں دوست گہرائی کہاں ہے

    میں کِس کے سامنے اپنا دلِ بیتاب کھولوں
    نیا ہوں شہر میں اب تک شناسائی کہاں ہے

    کبھی تھی اِن سے وابستہ کہانی، جانتے ہو
    سجی تو ہیں مگر آنکھوں میں بِینائی کہاں ہے

    مُجھے دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں
    مچلتا ہے مگر یہ دِل تمنّائی کہاں ہے

    مبادا بُھول بیٹُھوں میں تُمہارا ناک نقشہ
    کہاں ہے بے وفا تُو، میرے ہرجائی کہاں ہے؟؟

    جگر پر جا بجا سرطان پلتے ہیں، مسِیحا!
    تُمہاری چشم تاثیریں، مسیحائی کہاں ہے؟

    مُجھے تسلِیم جذبے ڈھل چکےہیں میرے لیکن
    تُمہارے حسن کی پہلی سی رعنائی کہاں ہے؟

    اِرادے سے نہیں بس بے اِرادہ پُوچھ بیٹھا
    کمانیں کھینچ کے رکھتی وہ انگڑائی کہاں ہے

    میں اپنے آپ کو بے وجہ قیدی مانتا ہوں
    کِسی نے زُلف کی زنجِیر پہنائی کہاں ہے

    نہیں روٹی تو ہم کو دیجیے کوئی سموسہ
    ہمارے ہاں تو سب اچّھا ہے، مہنگائی کہاں ہے؟

    سُنائی دے رہے ہیں چار سُو اب غم کے نوحے
    کبھی گونجی تھی جو حسرتؔ وہ شہنائی کہاں ہے

    رشید حسرتؔ

    رشید حسرتؔ

    کُچھ نہِیں پایا ہے ہم نے اِس بھرے سنسار میں
    پُھول سے دامن ہے خالی گر چہ ہیں گُلزار میں

    پِھر محبّت اِس طرح بھی اِمتحاں لیتی رہی
    جیب خالی لے کے پِھرتے تھے اِسے بازار میں

    ہم نے ہر ہر بل کے بدلے خُوں بہایا ہے یہاں
    تب کہِیں جا کر پڑے ہیں پیچ یہ دستار میں

    ذائقوں سے اِن کے ہم کو کُچھ نہیں ہے اِنحراف
    سب سے مِیٹھا پھل ہے لیکن صبر سب اثمار میں

    چُرمراتے سُوکھے پتوں پر قدم رکھتے ہوئے
    کھو کے رہ جاتے ہیں ماضی کی حسِیں مہکار میں

    ہم گلی کُوچوں میں تو دعوا کریں تہذِیب کا
    اور اپنے گھر رکھیں ماں باپ کو آزار میں

    کیا ہی اچھّا تھا کہ ہم کرتے کِسی نُکتے پہ بات
    ہم دُکاں داری لگاتے ہیں فقط تکرار میں

    کل تُمہارے پاؤں چاٹیں گے ہمارا کام ہے
    آج حاضِر ہو نہِیں پائے اگر دربار میں

    زیدؔ نے لوگوں میں بانٹا، آج آٹا، دال، گِھی
    اِس توقع پر کہ ہو گی کل خبر اخبار میں

    ہم تُمہاری بے زُبانی سے تھے تھوڑا آشنا
    کِھلکھلاتی “ہاں” چُھپی تھی “پُھسپُھسے اِنکار میں

    جو سُنے وہ گُفتگُو کا بن کے رہ جائے اسِیر
    کیسا جادُو رکھ دیا اِک شخص نے گُفتار میں

    تھا زمانہ وہ تُمہارے ناز کا، انداز کا
    شرم کے مارے گڑھے پڑتے تُمہیں رُخسار میں

    کام کیا ایسا پڑا ہے، ڈُھونڈتے ہو کِس لِیئے
    ہم سے مِلنا ہے تو پِھر ڈُھونڈو ہمیں اشعار میں

    اِک وفا کو چھوڑ کر تصوِیر میں سب کُچھ مِلا
    اے مُصوّر رہ گئی بس اِک کمی شہکار میں

    جو ہُنر رکھتا ہے وہ روٹی کما لے گا ضرُور
    دوستو طاقت بڑی رکھی گئی اوزار میں

    شاعری تو خاک کر لیں گے مگر اِتنا ضرُور
    فیضؔ کا سندیس گویا روزنِ دِیوار میں

    جِس کی مرضی، جب، جہاں، جیسی بھی من مانی کرے
    اِک ذرا سا دم کہاں باقی رہا سرکار میں

    کیا حقِیقت پُوچھتے ہو، زِندگی اِک جبر ہے
    درد بن کر خُون بہتا ہے تِرے فنکار میں

    ہم اگر تذلِیل کی زد میں ہیں تو باعِث ہے یہ
    حل کبھی ڈُھونڈا نہیں اقبالؔ کے افکار میں

    آج اپنے فن کی لوگو قدر دانی کُچھ نہیں
    کل ہمیں ڈُھونڈا کرو گے تُم قدِیم آثار میں

    مصلِحت کا یہ تقاضہ تھا کہ ہم نے مان لی
    جِیت پوشِیدہ کِسی کی تھی ہماری ہار میں

    آخری شمعیں بھی اب تو پھڑپھڑا کے رہ گئِیں
    مُنتظِر بیٹھے ہوئے ہیں ہم یہاں بےکار میں

    وہ، تعلُّق جِس کی خاطِر سب سے توڑا تھا رشِیدؔ
    لو چلا ہے وہ بھی ہم کو چھوڑ کر اغیار میں

    رشید حسرتؔ

    رشید حسرت

    ستاتا ہے گگن کا چاند یا تارے، تُمہیں کیا
    ہوا مہکی ہُوئی، دریا کے یہ دھارے، تُمہیں کیا

    چلے تھے گاڑنے جھنڈے وفا کے عِشق نگری
    پِھر ایسا ہے کہ سب کُچھ شوق میں ہارے، تُمہیں کیا

    جتایا مِیٹھے لہجے میں کِسی نے پیار ہم سے
    ہُوئے محسُوس وہ الفاظ بھی آرے تُمہیں، کیا

    ہمیں تُم سے کوئی شِکوہ شِکایت تو نہِیں ہے
    گنوا بیٹھے جو اپنے خواب وہ سارے، تُمہیں کیا

    دلِ وحشی کو راحت مِل رہی ہے جِن کے کارن
    چُبھے جاتے ہیں آنکھوں میں وہ نظّارے تُمہیں کیا

    پڑا ہر گام پر رونا بجا یہ بات لیکِن
    دُہائی دے رہے ہیں آ کے “بیچارے” تُمہیں، کیا

    کِسی کے ساتھ چلنے میں قباحت کیا ہے حسرت
    اُڑا کے لے کے جائیں گے یہ بنجارے تُمہیں کیا

    رشِید حسرت

    Rasheed Hasrat

    کھینچی زبان اُس کی بہُت بولتا تھا وہ
    شاہوں کے راز جو تھے سبھی کھولتا تھا وہ

    اُس کو تھی راست گوئی کی عادت پڑی ہُوئی
    سب کی بیان بازیوں کو تولتا تھا وہ

    ہاری کِسان اُس کو بہُت ہی عزِیز تھے
    مارا گیا کہ کانوں میں رس گھولتا تھا وہ

    باز آؤ سچ سے دوست اُسے بولتے رہے
    کِتنا نڈر تھا خطرے سبھی مولتا تھا وہ

    خُود کو سنبھال، کہتا رہا، غاصِبوں سے چِھین
    دینے شعُور اپنی زباں کھولتا تھا وہ

    لوگو شراب اُس کا بھلا کیا بگاڑتی
    جمہور کا تھا کیف جبھی ڈولتا تھا وہ

    اِنسان تھا وہ اُس پہ بھی ہوتا اثر ضرُور
    ہنستا رشِیدؔ، آنسُو کبھی رولتا تھا وہ

    رشِید حسرتؔ

Leave a Reply