344 views 0 secs 0 comments

سفر

In ادب
April 16, 2021
سفر

استعارہ سفر ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا ۔ سفر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں “سیر وافی الارض ” کا حکم دے کر سفر کی ترغیب دی گئی ہے۔ سفر ہی کے ذریعے نئی نئی معلومات انسان کو حاصل ہوتی ہیں ۔ سفر میں نئے ممالک ،نئے جغرافیے ، ناموس ماحول کے ذریعے انسان کی فکری صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ سفر انسان کو وسیع النظر وسیع القلب اور جسمانی طور پر متحرک اور بیدار رکھتا ہے ۔

سفر نامہ لکھنے کی روایت ہر دور، ہر زبان میں رہی اُردو میں اس صنف کا آغاز ” عجائبات فرنگ ” سے ہوا اور بیسویں صدی کے آغاز سے ہی مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی سفرنامے لکھے ان میں پہلا نام عطیہ فیضی کا “زمانہ تحصیل ” ہے ۔ خواتین سفر نامہ نگاروں نے حصول علم ، فرائض منصبی کی انجام دہی اور سیاحت کی غرض سے اندرون ملک ، بیرون ممالک کے سفر کیے ہیں اور ان اسفار کے احوال کو سفر نامے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اُن میں نازلی رفعیہ سلطان نواب بیگم ( سیر یورپ) ، بیگم حسرت موہانی ( عراق نشاط ثانیہ )، بیگم اختر ریاض الدین ( سات سمندر پار ، دھنک پر قدم) ، امتہ القدیر( کراچی سے چاٹ گام تک ) ،رضیہ فصیح احمد ( سیر پاکستان ) ، غزالہ نعیم ( قراقرم کے دیس میں) ، خالدہ ادیب خانم ( سفر نامہ ہند ، اندرون حیدر آباد) ، سلمیٰ اعوان ( یہ میرا بلتستان، سندر چترال)کے نام قابل ذکر ہیں۔اور فرائض منصبی کی غرض سے بیرون ممالک کے سفر کیے اور ان اسفار کا احوال قلم بند کیا ۔ جن میں “براہ راست ، ٹک ٹک دیدم ٹوکیو، درد دیس ، قلزم قطرہ تو اور میں ” شائع ہوچکے ہیں ۔ان کے قلم میں اس قدر تاثیر ہے کہ انہوں نے ناول ، کالم ، افسانے، ڈرامے ، شاعری اور سفر نامے بھی تحریر کیے اور ان کی تخلیقات کا سلسلہ ابھی جاری و ساری ہے ۔

موضوع بنایا ہے۔ اس لحاظ سے ان کے موضوعات میں عورت کے مسائل اور فطرت کی جھلک نظر آتی ہے وہ خود ایک عورت ہیں اس لیے عورت کے تجربات واحسات کی ترجمانی بھی ان کی باقی اصناف کے ساتھ ساتھ سفر نامے میں بھی نظر آتی ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں کہانی کا تانا بانا اس طرح بنتی ہیں کہ قاری کی دل چسپی آخر تک قائم رہتی ہے ۔اس موضوع کو تحقیقی مقالہ کے لئے منتخب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کے سفر ناموں کے فکروفن کے ذریعے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا جاسکے ۔