پاکستان کا نظام تعلیم-چند تلخ حقائق

In تعلیم
May 01, 2021
پاکستان کا نظام تعلیم-چند تلخ حقائق

پاکستان کا نظام تعلیم-چند تلخ حقائق
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تواس وقت شرح خواندگی 11 فیصد تھی آج 53 سال گزرنے کے بعد شرح خواندگی 58 فیصد ہے حالیہ بجٹ میں صوبوں کے لیے 830 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں یہ بجٹ جی ڈی پی کا صرف اڑھائی فیصد بنتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں تقریباً 2 لاکھ  60 ہزار 9 سو 3 سکول ہیں اور ان سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد 4 کڑوڑ 10 لاکھ 18 ہزار 384 ہے اگر اس حساب سے  830  ارب روپے کو ان بچوں پر تقسیم کیا جائے تو ایک بچے کے اوپر سال رواں میں حکومت 2023 روپے خرچ کر رہی ہے اس سے تعلیم کے حوالے سے حکومت کی ترجیحات کا اندازاہ لگایا جا سکتا ہے ساڑے تین کڑوڑ بچے ایسے بھی ہیں جو اسکول نہیں جاتے، وہ چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

آج مختلف تجزیات اور رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 58 فیصد  اسکول ایسے ہیں جہاں پر بنیادی ضروریات مثلاً عمارت ،ٹوائلٹس اور فرنیچر تک میسر نہیں۔18 فیصد اساتذہ ایسے ہیں جو اسکول نہیں جاتے ایسے اساتذہ کی تقرریاں محض مفاد پرستانہ،سفارشات اور سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہوتی ہیں اور-1959سے 1973 تک شرح خواندگی اور ملکی تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے لیے قومی تعلیمی کمیشن کے تحت کئی منصوبے تشکیل دیے گئے مگر کسی پر بھی عمل درآمد نہ ہو سکا اور اگر   کچھ ہوا بھی تو نہ ہونے کے برابر یہی وجہ ہے آج پورے ملک میں 5کڑوڑ 5لاکھ شہری ایسے ہیں جو تعلیم یافتہ ہی نہیں۔

آج تک جو کچھ پاکستان میں نظام تعلیم کے حوالے سے ہوتا رہا ہے اسے  ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کا نام دیا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نئی نسل کے اندر انتہا پسندی، دہشت گرد ی اور جہالت کے جراثیم ہوتے ہیں ان حالات میں ہم کیسے ان ہونہار اور نوجوان طلبہ وطالبات سے ملک وقوم کے روشن مستقبل کے لیے کچھ کرنے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ موجودہ نظام تعلیم ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کی شناسائی اور پرورش کے لیے ناکافی ہے۔

تمام سیاسی حکمران ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کے ادوار کو الزام تو دیتے ہیں مگر جب خود اقتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہیں تو اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔پاکستان کے ظہور کے بعد اگر ہر سال 1 فیصد بھی شرح خواندگی کو بڑھایا جاتا تو آج اس کو 84 فیصد ہونا چاہیے تھا نہ کہ 58 فیصد جس کے پاس جو صوبہ ہے اگر وہ اپنے صوبے کی شرح خواندگی کو بڑھانے کی کوشش کرتا تو آج پاکستان میں تعلیم کے حالات کچھ اور ہوتے مگر  بد قسمتی سے پاکستان کے سیاستدانوں کے مقاصد و ضروریات کچھ اور ہیں اور عوام کی ضروریات و ترجیہات کچھ اور 2009 کی تعلیمی پالیسی کے مطابق 2015 تک شرح خواندگی کو 81 فیصد تک پہنچ جانا چاہیے تھا مگر پچھلے ساڑے پانچ سالوں سے شرح خواندگی 58 فیصد پر ہی رکی ہوئی ہے۔پورے ملک سے مفاد کی سیاست کو ختم کر کے نظامِ تعلیم کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے