قبر میں ایک زندہ بزرگ قصہ

In افسانے
May 23, 2021
قبر میں ایک زندہ بزرگ قصہ

وقت کو ہم گھڑی کی ٹک ٹک سے ماپتے ہیں لیکن اس کی اپنی کوئی آواز نہیں ہوتی۔اس کا کوئی ذائقہ نہیں ہوتا۔نہ نظر آتا ہے اور نہ اس کو چھو سکتے ہیں۔ وقت کا وجود تبدیلی کے ساتھ جڑا ہوا ہے جیسے سورج صبح کو طلوع ہو کر شام کو غروب ہوتا ہے تو اس تبدیلی کو دیکھ کر ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہوتا ہے۔انسان جب شیر خوار بچے سے سفر طے کرتا ہوا عمر رسیدہ ہوتا ہے تو وقت کے گذرنے کا احساس ہوتا ہے۔

آئن سٹائن کے مطابق وقت ایک اضافی چیز ہے یعنی ہر ایک کے لئے وقت یکساں نہیں ہوتا۔ جب کوئی چیز روشنی کی رفتار کے آس پاس حرکت کرتی ہے تو اس کے لئے وقت کی رفتار بہت سست ہو جاتی ہے۔ اس کی وضاحت ایک مثال سے پیش کرتے ہیں ۔ تیس سال کے دو جڑواں بھائیوں میں سے ایک بھائی ایک سال کے لئے ایک ایسے خلائی جہاز میں سیر کے نکل جاتا ہے جو کہ تقریبا روشنی کی رفتار کے ساتھ حرکت کر رہا ہے ۔ایک سال کی سیر کے بعد جب یہ بھائی زمین پر پہنچے گا تو اس کا دوسرا بھائی عمر رسیدہ ہو کر اللہ کو پیارا ہو چکا ھو گا۔اسے کہتے ہیں وقت کا اسرار۔

ہمارے بزرگ بچپن میں ایک قصہ بیان کرتے تھے کہ ایک غریب تنگدست آدمی نے بے روزگاری سے تنگ آ کر اپنی تلوار اٹھائی. اور اپنے گھوڑے پر بیٹھ کر اپنے شہر کو خدا حافظ کہا اور کسی دوسرے بڑے شہر کا رخ کیا۔۔شام کو ایک چھوٹی سی بستی میں پہنچا تو وہاں ایک سراۓ نظر آئی۔ یہ آدمی بھوک پیاسا اور بہت تھکا ہوا تھا اس کے پاس کوئی نقدی بھی نہیں تھی۔ ۔سراۓ کی مالکن ایک نیک اور رحمدل عورت تھی۔ اس عورت نے اس آدمی کی غربت اور تنگدستی کو دیکھ کر مفت کھانا دیا اور اس زمانے کے سکہ رائج الوقت کے مطابق دس روپے قرض حسنہ کے طور پر یہ کہہ کر دئیے کہ یہ رقم اس نے اپنے کفن دفن کے لۓ سنبھال کر رکھی ہوئی تھی۔رقم لے کر اور اس نیکدل عورت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ آدمی اپنی منزل کی طرف روانہ ھوا۔ ایک بڑے شہر پہنچ کر اس کو بڑا اچھا روزگار میسر آ گیا۔دن رات کی محنت رنگ لائی اور کچھ عرصہ بعد اس آدمی کے پاس کافی رقم جمع ھو گئ ۔ایک دن اس کو خیال آیا کہ اس نیک دل عورت نے اپنی ساری جمع پونجی قرض حسنہ کی شکل میں مجھے دے دی تھی تو اس رقم کو واپس لوٹایا جائے۔

یہ سوچ کر یہ آدمی اس عورت کی طرف روانہ ھو گیا ۔یہ جب اپنی منزل مقصود پر پہنچا تو دیکھا کہ عورت بستر مرگ پر پڑی تھی اور تھوڑے ہی وقت میں اس آدمی کے سامنے ھی عورت کی روح پرواز کر گئ ۔اس آدمی نے اپنی محسنہ کے کفن دفن کا انتظام خود کیا اور قبر میں بھی اس کو اپنے ہاتھوں سے خود اتارا۔ رات کو بستر پر اس کو خیال آیا کہ میری ہنڈی (پیسوں کی رسید) غائب ھے۔ بڑا پریشان ہوا اور سوچتے سوچتے اس نتیجے پر پہنچا کہ عورت کو دفناتے وقت یہ رسید قبر ھی میں گری ھو گی۔۔ اسی وقت یہ آدمی قبرستان کی طرف روانہ ہو گیا۔ قبر تازہ تھی اس لئے کھودنے میں کوئی دقت نہ ہوئی لیکن قبر کھودنے کے بعد یہ ششدر رہ گیا کیونکہ قبر میں کوئی لاش نہیں تھی البتہ قبر کے اندر ایک چھوٹا سا راستہ بنا ھوا تھا۔یہ آدمی اس راستہ پر چلتا گیا سارا علاقہ بے پناہ خوبصورت اور سر سبز و شاداب تھا چلتے چلتے ایک عالیشان محل میں داخل ھو گیا اور دیکھا کہ وھی عورت ایک باغ کے اندر جھولا جھول رہی ہے۔سلام دعا کے بعد اس عورت نے اس کو ھنڈی واپس کی اور کہا کہ یہاں سے فوراً واپس جاؤ۔۔جب یہ آدمی قبر سے باھر آیا تو باھر کا نقشہ بالکل بدل چکا تھا۔۔اس سراۓ کا نام ونشان ھی غائب تھا۔بہت تحقیق کے بعد اس کو پتہ چلا کہ قبر میں اس نے جو چند لمحے گزارے تھے وہ اس دنیا کے تین سو سال کے برابر تھے۔اب یہ آدمی بیقرار ھو گیا اور اس کی سوچ بیچار نے کام کرنا چھوڑ دیا۔۔بزرگوں نے مشورہ دیا کہ حجاز مقدس کی طرف چلے جاؤ۔

کبھی لمحے نہیں گزرتے اور کبھی صدیاں لمحات کی طرح گزر جاتے ہیں ۔
(سید مظفر)

/ Published posts: 4

I am basically a science teacher and "reading" is my hobby.i will try to write informative and interesting articles on a variety of topics for readers .

One comment on “قبر میں ایک زندہ بزرگ قصہ
Leave a Reply