عصمت دری کے بڑھتے ہوئےواقعات

In خواتین
May 29, 2021
عصمت دری کے بڑھتے ہوئےواقعات

بڑے پیمانے پر ، پاکستانی معاشرے میں ، لوگ ہمیشہ عصمت دری کے معاملے میں متاثرہ کو مورد الزام قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم نے بھی ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ عصمت دری کے پیچھے محرکات فحاشی ہے ، خاص طور پر خواتین کا لباس۔

پچھلے سال سیالکوٹ- لاہور موٹر وے پر اجتماعی عصمت دری کے واقعہ نے مرکزی دھارے میں آنے والے میڈیا میں قیامت برپا کی تھی اور ساتھ میں پورے ملک میں مظاہروں کا ایک طوفان برپا کردیا تھا۔اس اقدام کی وجہ سے حکومت نے عصمت دری سے متعلق دو آرڈیننس نافذ کیے۔

انسداد عصمت دری (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020
تعزیرات پاکستان ترمیمی آرڈیننس 2020

ان دو آرڈیننس کے مطابق ، زیادتی کا نشانہ بننے والوں کے لئے ٹو فنگر ٹیسٹ پر پابندی عائد کرنا .اور ساتھ ہی خصوصی عدالتوں اور عصمت دری کے مراکز قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ مزید برآں ، ان آرڈیننسوں نے بھی عصمت دری کی تعریف کو بڑھایا اور ساتھ ہی عصمت دری کرنے والوں کیلئے کیمیکل کیسٹریشن سزا متعارف کروایا ۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مذکورہ بالا دونوں آرڈیننسوں کے باوجود عصمت دری کے واقعات بے قابو ہیں اور وفاقی دارالحکومت میں ان کی تعداد 200 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ ایک تکلیف دہ صورتحال ہے کہ زیادہ تر 80 فیصد مجرمان ناقص تفتیش ، عیب دار استغاثہ اور اکثریتی طور پر عدالتی تصفیوں کی وجہ سے بری ہوجاتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق عصمت دری کے بہت ہی کم واقعات درج ہوتے ہیں جس کی وجہ عدالت میں انصاف کی کم امید اور معاشرے کی بنیاد پرست نقطہ نظر ہی تصور کی جاتی ہے اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں سی سی پی او لاہور کے ریمارکس اور حالیہ انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان کے بیان سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس قسم بیانات سے نہ صرف جنسی جارحیت کو جسٹیفائی کرنا ہے بلکہ اس کو غیر معمولی بھی قرار دینا ہیں۔

ہر شہری کے لئے ضروری ہے کہ وہ دنیا اور معاشرے کے بارے میں ایسے غلط عقائد کے خلاف چیلنج کریں اور ان غلط عقائد سے پیچھے ہٹیں۔

/ Published posts: 3

My name is Tariq Aziz and currently I'm a practising lawyer at Peshawar Session Court where I work under the auspices of top advocates.

1 comments on “عصمت دری کے بڑھتے ہوئےواقعات
Leave a Reply