چت کبری

In افسانے
June 07, 2021
چت کبری

 فجر کی ٓازان کے ساتھ ہی بے جی کی اواز آتی، کڑیو اٹھو نماز کا وقت ہو گیا ہے، ہم سب آنکھیں ملتے اپنے اپنے دوپٹے سنبھالتے باتھ روم کی سمت دوڑ لگا دیتے ،نماز کے  بعد قران کی تلاوت بھی لازم تھی، بے جی کا حکم تھا  کہ چاہے پاو سپارہ  پڑھو لیکن پڑھو روزانہ ورنہ  ناشتہ نہیں ملے گا ،سپارے کے ساتھ پاؤ یا چھٹانگ  لگانا میری سمجھ میں تو اب تک نہیں آسکا۔ بھر حال ھم چاروں نماز کے بعد زور زور سے ھل ھل کے سپارے پڑھنا شروع کر دے تے بے جی کے کان ھئماری ٓآوازوں پے لگے ھوتے اور ھاتھ گھر کے کاموں میں مصروف رھتے، ذرا جو کسی کے زير زبر میں تھوڑی سی بھی غلطی ھوتی فورا آواز آتی کہ فلاں نے فلاں لفظ غلط پڑھا ھے اس کی تصيح کرواتيں اور دوھرانے کا ک؍تيں ۔

بے جی درميانے قد گھٹے ھوے جیسم فرباؑی ماؑل خوبصورت نقوش والی عورت تھیں رشتے ميں تو وہ ھماری دادی تھيں ليکن سب گھر بلکے پورے محلے والے انہيں بےجی ھی کہتے تھے پورے گھر انتظام انہيں ھی کرنا ھوتا سواءے باورچی خانے کا کام ھماری امی کے ذمے تھا جنہيں ھم آپی کہا کرتے تھے، مجھے ياد نہيں کبھی ھئم نے اپنی امی سے کئچھ مانگا ھو يا اپنے دل کی کوئ بات ان سے کی ھو،يۃ کھنے کا اختيار ھئمارے پاس نھی تھا اور سئننے کا ان کے پاس نھی ،ھئماری حاجت روائ کا حق صرف اور صرف بے جی کو تھا،ھئمارے اور امی کے درميان ھئميشھ بے جی حد فاصل کی طرح حاءل رھيں۔

بے جی کے سر سے دوپٹہ کبھی نھی سرکتا تھا يہ ھی حکم ھئمارے لیے بھی تھا،پورے محلے ميں کسی کو ميلاد کروانا ھوتا يا کلامے پاک کا ختم کروانا ھوتا وہ اسکی ذمہ داری بے جی پے ڈال ديتا،  پھر سپاروں اور تسبيح کے دانوں سے لے کر چاءے يا کھانےکے انتظامات سب انھی کی نگرانی ميں طے پاتے،وہ ھی بتاتيں کہ کتنے لوگ کتنے وقت ميں سوا لاکھ بار آيات۔کريمہ پڑھ سکتے ھيں اور دو دفع قرآن پاک ختم کرنے کے ليے کتنی خواتين درکار ھونگی، نعت خواں خواتين کھاں سے بلوائ جانی ھيں کون انھيں ليکر آے گا اور کون چھوڑنے جاے گا وغيرہ وغيرہ۔

ھئم چاروں بہنوں کو ابو کی شکل کبھی کبھار ھی نظر آتی وہ بھی جب کبھی اچانک ٓامنا سامنا ھو جاتا  تو،ورنہ تو اُدہر وہ گھر ميں داخل ھوہے ادھر ھئم اپنے کمرے ميں گھس جاتے، ھاں البتہ بند دروازوں کے پيچھے سے اکثر اُن کی چيخم دھاڑ اور گالم گلوچ کی آوازيں صاف سنائ ديتيں بےجی جنکا رعب و دبدبا پورے گھر بلکہ پورے محلے پر تھااُن کے آتے ھی بےجی کے غبارے ميں سے ايکا ايکی گيس يوں نکل جاتی کہ پھسسسسسسس کی آواز بھی نہ آتی،معلوم نھی وہ کيا کام کرتے تھے،کچھ کرتے بھی تھے کہ يوں ھی بے کار گھوما کرتے تھے، ھاں البتہ يہ ضرور پتہ ھے کہ گھر ميں سب سے اچھا کھانے کو انھی کو ملتا تھا۔ھئميں صبح اسکول جانے سے پھلے ناشے ميں چا ءے کے ساتھ رسک وہ بھی دو دو فی کس،اور ابو کے لیے بھنا گوشت اور پراٹھے بئنتے،ھئمارے ھاں دو طرح کی ھانڈياں چھڑھائ جاتيں ايک دال اور سبزی دوسری گوشت مُرغی يا اسی قبيل کی کوئ چٹ پٹی سی چيز۔اس نا انصافی پہ ھئم کھُلا احتجاج تو نہيں کر سکتے تھے مگر دل ھی دل ميں جلتے کڑھتے ضرور تھے۔ميں نے کئ بار نماز ميں دونوں ھاتھ اُٹھا کے انھيں کوسا بھی،يا خدا انھيں کسی گاڑی کے ساتھ ٹکرادے يا گاڑی کے نیچے آ کے مريں، انکی لاش بھی گھر نا آے۔

يہ تو مجھے معلوم نہ تھا کہ ھئمارا گھر کيسے چلتا تھا بس يہ معلوم تھا  کہ منشی جی ھر ماہ آتے اور بےجی سے کچھ  حساب کتاب کر کے چلے جاتے،بعد ميں پتہ چلا کہ ھئمارے دادا کی کچھ بسيں لاھور ملتان اور لاھور راولپندی روٹ پر چلا کرتيں تھيں ان کی وفات کے بعد ابو نے تو کبھی کاروبار پر توجہ نہ دی البتہ بے جی نے منشی جی کے سپرد يہ ذمہ داری کی اور فی بس کچھ  طے کرليا تھا جو وہ ھر ماہ دے جايا کرتے تھے۔ منشی جی يوں تو ايمان دار اور شريف النفس انسان تھے، ليکن اس گھر سے وفاداری کی ایک خاص وجہ تھی،وہ يہ کہ کافی عرصہ ھوا منشی جی کی بيوی ایک بچی کو جنم دے کر وفات پا گي تھيں تب بے جی نے اُس بچی کو گود لے ليا تھا اب وہ ھئمارے خاندان کا حصہ تھی،اسے سب مينو کہتے نام تو اُس کا منيزہ تھا بس اسی وجہ سے منشی جی کا رشتہ ھئمارے گھر سے ھئميشہ استوار رھا، وہ جب بھی آ تے مينو کو پيار ضرور کرتے مگر کبھی بتايا نہيں کہ وہ ان کی بيٹی ھے، يہ شرط بے جی نے پہلے روز ھی  طے کر لی تھی۔

مينو آپا تمام وقت بےجی کے ساتھ رھتيں،انھی کا ھاتھ بٹاتيں گويا وہ ان کا کاؤنٹر پارٹ تھيں،چونکہ وہ ھئم سے دس بارہ سال بڑی  تھيں اس ليے ھئمارے ان سے کوئ خاص روابط نہ تھے،پر جوں جوں ھئم بڑے ھوتے گيے ھئميں اس گھر ميں ان کے دوسرے مصرف نظر آنا شروع ھوگيے،ایک روز ابو نے ھسب معمول آپی  کو بوھت مارا ان کے چہرے اور جسم پر زخموں کے واضع نشان تھے،ميرا جی چاھا ميں آپی کو گلے سے لگا کے خوب روؤں ليکن ھئميں اسکا حق کب تھا۔اگلے دن جب ھئم اسکول سے واپس لوٹے تو آپی گھر چھوڑ کے جا چکيں تھيں۔ اُسی رات ميں نے ديکھا مينو آپا ابو کی خواب گاہ کی طرف جا رھی تھيں اور بے جی بھی ان کے ساتھ تھيں انہيں کچھ سمجھاتی جا رھی تھيں،ان کے ھاتھ ميں دودھ کا گلاس بھی تھا جس کے اوپر نيچے دو چھوٹی پليٹيں رکھيں تھيں،بے جی انھے دروازے تک چھوڑ کے واپس اپنے کمرے ميں لوٹ گيںں اگلی صبح جب ھئم اسکول کے ليے تيار ھوکر کچن ميں پہنچے تو وہ آپی کی جگہ براجمان تھيں۔ھئمارا ناشتہ تيار تھا اور ابو کے ليے گوشت بھونا جارھا تھا، پھر يہ روز کا معمول ھو گيا۔چند دن بعد آپی کی امی اور بھائ آے بے جی سے کچھ مزاکرات ھوے اور يہ کہ کے انہيں چھوڑ گيے کہ بيٹا چار بيٹياں پہلے ھيں ایک اور آ نے والا ھے ايسے ميں گھر چھوڑنا ٹھيک نہيں،

ایک صبح ھئم اُٹھے تو گھر ميں کچھ غير معمولی سی بھاگ دوڑ محسوس ھوئ پوچھنے پر پتا چلا کہ خدا نے ھئميں ایک ننی منی سی گول مٹول بہن دی ھے۔ھئم چاروں بہھت خوش ھوہے اور اسکول جانے سے صاف انکار کر ديا،مگر بے جی کے ایک ھی دبکے نے ھئميں ناک کی سيدھ مين روزمرہ پہ چلنے پر مجبور کر ديا ليکن اسکول سے واپسی پر ھئم چاروں ميں منی کو گود ميں لينے سے متعلق بحث ھوتی رھی ،جوں ھی گھر ميں قدم رکھا فضا کچھ سوگوار تھی،خدا جانے کيوں، کب، کيسے منی مر گيئ تھی دائ ھاتھ ملتی جا رھی تھی اور کہتی جا رھی تھی،، بے جی ميں اچھا بھلا نہلا دھلا کے ماں دے کول لٹا کے گيٗ ساں۔ ،،اللہ کی رضا بندے کو اسکی رضا ميں راضی ھونا پڑتا ھے۔بے جی نے بڑے خلوص و عقيدت سے کہا۔ ھئم چاروں کا تو بہت موڈ خراب ھوا ليکن گھر کے بڑے سب مطمعن تھے،سواے آپی کے ان کی آنکھوں ميں شکوہ تھا تڑپ تھی ممتا کی تڑپ نمی تھی،لب يوں خاموش تھے جيسے سی ديے گيے ھوں، ایک دفع پھر ڈيڑھ سال بعد يوں ھی ایک ننھی پری آئ اور خاموشی سے چلی گيئ اس کے بعد آپی ايسی بستر سے لگيں کہ پھر کبھی اُتھ نہ سکيں، کسی کو کان و کان خبر نہ ھوٗئ کہ کب مينو آپا نے آپی کی جگہ لے لی۔

ھئم منہ تکتے رہ گيے۔