ماحولیات کی بقا اور ہماری ذمہ داریاں

ماحولیات کی بقا اور ہماری ذمہ داریاں

عموماً ہمیں کسی چیز کی قدر و قیمت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب وہ چیز ہمارے ہاتھوں سے نکل چکی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے کچھ ایسا ہی ہمارے ماحولیاتی نظام کے ساتھ بھی ہوا۔ اگرچہ ماحولیات کا تحفظ ہماری اولین ترجیحات میں سے ایک ہونا چاہییے تھا لیکن ہم نے اسے پسِ پشت ڈالے رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری زمین پر اس کے مضر اثرات سامنے آنے لگے۔

کوئی چیز تب تک خوبصورت اور مفید ہوتی ہے جب تک وہ توازن میں رہے۔ بقول اسلمؔ کولسری زمیں اپنا توازن کھو رہی ہے‏قیامت کی ریہرسل ہو رہی ہےبدقسمتی سے ہماری زمین اپنا توازن کھو رہی ہے اور اس کے پیچھے بہت سے قدرتی اور انسانی عوامل کار فرما ہیں۔ جن میں جنگلات کی کٹائی سے لے کر صنعتی انقلاب تک سینکڑوں چیزیں اپنا اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔پچھلے کچھ عرصے میں دنیا کو اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک ہوا۔ اقوامِ متحدہ کے تحت مختلف ممالک اس کے حل کے لیے اپنے طور پر اقدامات کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کوششیں کس حد تک کار گر ثابت ہوتی ہیں۔

ماحولیاتی نظام کی بحالی کے لیے سب سے پہلے اجتماعی شعور بیدار کرنا از حد لازم ہے۔ جب تک لوگوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوگا تب تک یہ کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتیں۔ اس سلسلے میں حکومت اپنا کردار ادا کرتے ہوئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر تشہیر کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مساجد کے خطبات میں علماء اپنے طور پر بھی لوگوں کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ ماحولیات کے تحفظ اور اس کی بقا کے لیے انفرادی سطح پر کی جانے والی کوششوں کو سراہا جانا چاہییے کیوں کہ افراد سے ہی معاشرے تشکیل پاتے ہیں۔ جب تک ہر ہر فرد اپنے طور پر اس کام میں حصہ نہیں ڈالے گا تب تک مجموعی طور پر کی جانے والی کوششوں کی کامیابی ممکن نہیں۔ اس سلسلے میں موجودہ ماحول کا تحفظ ہمیں سرِ فہرست رکھنا ہوگا۔

جنگلات کی کٹائی کو روکنا

درخت ماحول کو متوازن رکھنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی ہمیں آکسیجن کی صورت میں زندگی مہیا کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ جذب کر کے ماحول کو صاف کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ درخت ہی ہیں جو لینڈ سلائیڈ جیسے مظاہر کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ درخت ہی جنگلی حیات کے لیے مسکن فراہم کرتے ہیں اور ان کی افزائشِ نسل میں معاونت کرتے ہیں۔اسی طرح ہمارے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”جس مسلمان نے کوئی درخت لگایا اور اس کا پھل آدمیوں اور جانوروں نے کھایا تو اس لگانے والے کے لیے صدقہ کا ثواب ہے“(صحیح بخاری)

بقولِ شاعر
جلانا جسم اپنا دھوپ کی تپتی انگیٹی میں
مگر فرشِ زمیں پر چھاؤں کی چادر کو پھیلانا
درختوں سے کوئی سیکھے سبق حُسنِ مروت کا
فضا کا زہر پی لینا، مگر تریاق لوٹانا

حقیقت تو یہی ہے کہ درخت ہمارا پھیلایا ہوا زہر پی کر بدلے میں ہمیں زندگی بخشتے ہیں لیکن ہم دھڑا دھڑ انہیں کاٹ رہے ہیں۔ کبھی فرنیچر بنانے کے لیے تو کبھی کاغذ حاصل کرنے کے لیے۔ کبھی گھروں کی تزئین و آرائش کے لیے تو کبھی کسی اور مقصد کے لیے۔ درختوں کی کٹائی  کے باعث دنیا اب تک اپنے ایک تہائی جنگلات کھو چکی ہے جو کہ ایک نازک صورتحال ہے۔اگر صرف پاکستان کی بات کریں تو پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں جنگلات کی کٹائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ہمیں جنگلات کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ نئے درخت لگانا ہوں گے۔ اس سلسلے میں کئی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں جیسے کہ موٹرویز کے دونوں اطراف میں درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ مختلف سرکاری دفاتر، رہائشی کالونیوں اور چھوٹے درجے پر اپنے گھروں میں درخت لگائے جائیں۔ اسی طرح انفرادی اور اجتماعی سطح پر درخت لگانے کی کیمپین چلا کر خاطر خواہ نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان کا “بلین ٹری سونامی” اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

آلودگی

صنعتی انقلاب نے ماحول کو آلودہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کارخانوں اور فیکٹریوں کے فاسد مادے زمین کی زرخیزی اور زیرِ زمین پانی کو متاثر کر رہے ہیں جبکہ کارخانوں کی چمنیوں اور گاڑیوں سے نکلنے والی زہریلی گیسیں فضا کو آلودہ کرنے کے ساتھ ساتھ تیزابی بارش کا سبب بھی بنتی ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں پر زہریلی ادویات کا چھڑکاؤ سنجیدہ امراض میں اضافے کی وجہ بن رہا ہے۔ آلودگی میں باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ شور بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ گاڑیوں اور بڑی مشینوں سے لے کر مختلف قسم کے پریشر ہارن تک شور کی آلودگی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

گلوبل وارمنگ کا باعث بھی یہی صنعتی انقلاب ہے۔ فوسل فیولز کا استعمال کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر خطرناک گیسوں کو جنم دیتا ہے جو اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں زمین اور اس پر بسنے والوں کو ان گنت نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اوزون کی تہہ کمزور ہونے سے سورج کی خطرناک شعائیں آنکھوں اور جِلدی بیماریوں کی وجہ بنتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گلوبل وارمنگ گلیشیئرز کے پگھلنے کی وجہ بھی بنتی ہے جس سے سمندروں کی سطح ہر سال بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بذات خود ایک خطرناک علامت ہے۔ دنیا میں سالانہ ستر لاکھ لوگ فضائی آلودگی کے باعث سانس کی بیماریوں اور امراضِ قلب میں مبتلا ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اسی موضوع پر انور مسعود ایک قطعے میں کہتے ہیں

تیرا اپنا ہی کیا آیا ہے تیرے سامنے
تو اگر بیمار پڑ جائے تو واویلا نہ کر
میں بتاتا ہوں تجھے صحت کا بنیادی اصول
جس ہوا میں سانس لیتا ہے اسے میلا نہ کر

ہمیں فضا کو میلا ہونے سے بچانے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ حکومتی سطح پر بھی ان وجوہات کا سدِ باب وقت کی ضرورت ہے۔ کارخانوں کے لیے مخصوص صنعتی زون بنائے جائیں۔ رہائشی علاقوں کے نزدیک کارخانے اور فیکٹریاں لگانے پر پابندی عائد ہونی چاہییے۔ اس کے علاوہ فاسد مادوں کو تلف کرنے کے لیے جامع حکمت عملی اپنائی جائے اور اس سلسلے میں سُستی کرنے پر بھاری سزائیں مقرر کی جائیں۔ کسانوں کے لیے زہریلی کھادوں کے استعمال پر پابندی عائد ہونی چاہییے اور اس کے بجائے دیسی کھادوں کا استعمال کیا جانا چاہییے۔ ماحول دوست زرعی مشینری استعمال کی جائے جس سے آلودگی پر قابو پایا جا سکے۔ گاڑیوں کے لیے کیٹالک کنورٹر ضروری کرنے قرار دلوانے کے لیے قانون سازی کی جانی چاہیئے۔ روایتی گاڑیوں کی جگہ الیکٹرک گاڑیاں متعارف کرائی جائیں۔ دنیا میں روزانہ کے حساب سے بیس لاکھ ٹن سیوریج کا پانی دریاؤں، جھیلوں اور صاف آبی ذخائر میں پھینکا جاتا ہے جس سے سینکڑوں بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ہمیں بحثیتِ فرد کوڑا کرکٹ کو مناسب جگہ تلف کرنا چاہییے اور دریاؤں یا ندی نالوں کو حتی الامکان صاف رکھنے کی کوشش کرنی چاہییے۔

پلاسٹک کے شاپنگ بیگز کا استعمال ترک کیا جانا چاہیئے۔ ماحول کے توازن میں صاف پانی کا اہم کردار ہے۔ ہمیں صاف پانی کے ذخائر کو محفوظ کرنے اور اسے ضائع ہونے سے بچانے کے لیے بہت سی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ذاتی طور پر ہم پانی اور بجلی کا غیر ضروری استعمال کم کر سکتے ہیں۔ گھر کے تمام غیر ضروری برقی آلات بند رکھنے چاہییں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہر سطح پر تھری آرز (3R’s) کی تکنیک پر عمل درآمد کرنا چاہییے۔الغرض اگر ہم واقعی اپنے ماحول کو دوبارہ سے متوازن کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں انفرادی اور حکومتی سطح پر اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھنا ہوں گی تاکہ آنے والی نسل کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جا سکے۔

حسیب اقبال