ڈیورنڈ لائن کی حقیقت

In تاریخ
July 08, 2021
ڈیورنڈ لائن کی حقیقت

امریکہ کی افغانستان سے بے دخلی کے بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان کی امریکہ کو Absolutely not کی کال دینے پر افغانستان نواز قوم پرست ، لبرل معافیا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کبھی شاہ محمود قریشی کے انٹرویو کی بنیاد پر تو کبھی ڈریونڈ لائن جیسے خود ساختہ اور بے جان مسئلے کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف مختلف سوشل میڈیا سائیٹس پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان افغانستان کے علاقے پر قابض ہے

ڈیورنڈ لائن کے معاملے کو سمجھنے کے لے اس لائن کے تاریخی پس منظر کو جاننا بہت ضروری ہے -افغانستان حکومت اور برطانوی حکومت نے انیسویں صدی کے اخر میں ایک معاہدے کے تحت اپنی سرحدیں منجمد کرنے کا فیصلہ کیا اس معاہدے کے تحت برصغیر اور افغانستان کے درمیان جو سرحدی لائن کھنچی گئ اس کو ڈریونڈ لائن کہتے ہے یہی لائن تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کا تعین بھی کرتی ہے

افغانستان تقسیم ہند کے بعد ڈریونڈ لائن کو مسترد کر دیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان کو ان کے علاقے واپس کرے جبکہ پاکستان نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوۓ موقف اپنایا کہ ایشا میں نوآبادیاتی طاقتوں کے چلے جانے کے بعد ان کی ہی قائم کردہ سرحدوں کی بنیاد پر تقسیم کی گئ ہیں ایسی سرحدیں بہت سے ممالک کے درمیان موجود ہے پاکستان ایسی کوئی مثال قائم نہیں کرنا چاھتا میں جس کی بنیاد پر ایشیا میں بدامنی کا خطرہ ہو

اس کے بعد سردار داؤد اس خود ساختہ مسئلے کو ختم کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہے لیکن ان کی حکومت جانے کے بعد پھر افغانستان اور پاکستان کے تعلقات اس معاملے کی وجہ سے خراب ہوگۓ روسی مداخلت کے بعد افغانستان کی طرف اس اس معاملے پر کوئی خاص دلچسپی نہیں دیکھائی گئی

افغانستان ڈریونڈ لائن کو تسلیم نہ کرنے کا اہک بہانہ پشتون قبائل کا لگاتا ہیں کہ اس لائن نے پشتون قبائل کو تقسیم کر دیا حالانکہ سرحد کے پشتون ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں پاکستانی پشتون افغان پشتون سے زیادہ خوشحال بھی ہیں اکثر افغان پشتون پاکستان میں علاج وغیرہ کے سلسلے میں آتے رہتے ہیں افغانستان اپنے ملک میں آباد پشتونوں کو حقوق دینے کی بجاۓ پاکستان میں آباد پشتون کے حقوق کا رونا روتا رہتا ہے

پاکستان میں پشتون آبادی افغانستان سے کئ زیادہ ہے سرحد (کے پی کے) کی عوام ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان کے حق میں راۓ دے چکے ہے کیوں نا افغانستان کے پشتونوں سے بھی راۓ لے لی جاۓ کہ وہ افغانستان کے ساتھ رہنا چاھتے ہے یا نہیں-اگر افغانستان کہ پشتون قبائل کی تقسیم کی بنیاد لسانی ہے لسانی بنیاد پر تقسیم کسی صورت قابل قبول نہیں کی جا سکتی اس طرح تو دنیا کا کوئی ملک بھی قائم نہیں رہ سکتا خود افغانستان میں مختلف طبقات آباد ہیں

ایک طرف تو افغانستان اپنی ہی قائم کردہ سرحد پر پاکستان دشمن قوتوں کے کہنے پر سالوں بعد شور ڈال کر چپ ہوجاۓ گا تو دوسری طرف افغان نواز ذہنی نابالغ گروپ چینی سے دوبارا گنا بنانے کی کوشش میں ہیں ان بیواقوفوں کی یہ کوشش لاحاصل تھی لاحاصل ہے اور رہے گی-ان شاءاللہ پاکستان ہمشیہ قائم دائم رہے گا