پرائیویٹ تعلیمی نظام پر کرونا وائرس کے اثرات

In عوام کی آواز
December 27, 2020

پچھلے چند ماہ سے یہ بات دیکھنے میں آ رہی ہے کہ پرائیویٹ نظام پر کرونا کے سب سے زیادہ اثرات پڑے ہیں۔بظاہر تو اس بات کو کافی حد تک سچ مانا جا سکتا ہے ہے لیکن اگر الزام صرف اور صرف حکومت پر دیا جائے جائے تو یہ ایک بہت بڑی بے وقوفی ہوگی۔ اس کی پہلی اور اہم وجہ یہ ہے ہے کہ کرونا ایک عالمی وباء ہے اور اس میں حکومت کا کا کوئی عمل دخل نہیں۔بے شک حکومت اس وبا کی روک تھام کے لیے لئے کوشش ضرور کر سکتی ہے لیکن اس میں  سب سے بڑا کردار انسان کا اپنا انفرادی عمل ہے۔

اگر ہم کہیں کہ کرونا کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین متاثر ہوئے ہیں تو یہ بات بالکل سچ ہے لیکن اس میں حکومت سے  کہیں زیادہ قصور ان اداروں کے مالکان کا ہے جو اب مافیا بن چکا ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت سے ہٹ کر اس بات کو مثبت انداز میں بالکل نیوٹرل ہو کر سوچا جائے تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ اس میں سب سے بڑا قصور ان مالکان کا ہے جن کا رویہ اب کسی ظالم سے کم نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک چھوٹے سے کرائے کے گھروں سے اپنے سکولوں اور کالجوں کا آغاز کیا۔ طلباء سے سارا سال مہنگی فیسیں لے کر محدود سطح پر وسائل دئیے ۔ خود پرانی موٹر سائیکل سے گاڑیوں پر آگئے۔ اپنے گھروں کو بڑی بڑی کوٹھیوں میں بدل دیا۔ یہ وہ طبقہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کرونا اگلے سال بھی رہ گیا تب بھی ان کے بنک خالی نہیں ہونے والے کیونکہ انہوں نے اپنے خاندان میں کئی لوگوں کے نام آڈٹ سے بچنے کے لیے اکاؤنٹ کھلوائے ہوئے ہیں  اور سب سے بڑی شرمندگی کی بات یہ ہے کہ یہ اس سب سرمایہ کو اپنا حق اور رزق حلال سمجھتے رہے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے اپنے اداروں میں تقریباً سب ملازمین کی تنخواہ کسی مزدور کی ایک اوسط تنخواہ سے بھی کم رکھی ہوئ ہے اور خود علاقے کے سرداروں کی طرح ایک شاہانہ زندگی کی عادت ڈالے ہوئے ہیں۔
یہ وہ مافیا ہے جو اپنے اداروں میں بیشتر اساتذہ اور ملازمین کو وزٹنگ پر صرف اس لیے رکھتے ہیں تاکہ تعطیلات کے دوران انہیں عملے کو کچھ دینا نہ پڑے مگر اس کے باوجود وہ طلباء سے چھٹیوں کی پوری پوری فیس وصول کرتے ہیں۔ اور مزید یہ کہ یہ ادارے اتنی کم تنخواہ دینے کے باوجود بھی اس میں سے سیکیورٹی کی رقم کاٹنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب کبھی کسی ملازمین کو اطلاع دے کر چھوڑنا بھی پڑ جائے تو وہ رقم اول تو ملتی نہیں، اگر ملتی ہے تو پھر بہت زیادہ اثرورسوخ کے بعد اور  بہت بار ادارے کے چکر لگانے کے بعد یعنی کئی بااثر لوگوں کی فون کال کروانے کے بعد یا ان کو لیبر کورٹس میں دھکیلنے کے بعد – ایسے بہت سے اداروں میں کچھ ایسے بھی محنتی ملازمین ہیں جنہوں نے اس ادارے کو اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ دے دیا ہے مگر ان ہنگامی حالات کے اندر یہ مافیا ان کو بھی مدد کرنے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔  جہاں دنیا کے بیشتر ممالک میں مہنگی ترین یونیورسٹیوں نے بھی اپنی فیسوں میں کرونا جیسے حالات کی وجہ سے کمی کی ہے وہاں ہمارے ملک میں موجود اس چھوٹے پرائیویٹ مافیا نے فیسوں میں کمی تو نہیں کی، مگر آن لائن پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہوں میں ضرور خاطرخواہ کمی کر دی ہے اور جب ان سے بات کی جائے کہ تنخواہ کو بڑھائیں تو یہ حکومت وقت کو تین چار گالیاں نکال کر اور حالات کا بہانہ بنا کر ان کو مختصر وقت کے لیے مطمئن کر دیتے ہیں۔ اب بتائیں ان حالات میں قصور کس کا ہے؟؟۔ یہ لوگ کیا ہماری آنے والی نسلوں کی ذمہ داری لیں گے جو اپنے ملازمین کو  مکمل سہولیات دینا، مشکل وقت میں مدد کرنا یا ان کو عزت واحترام دینا نہ سمجھتے ہوں۔
اس تحریر کا مقصد ہمارے ملک میں موجود ہر پرائیویٹ تعلیمی ادارے کو بدنام کرنا نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان اداروں کے سربراہان کی غوروفکر کے لیے ہے جو اپنے ملازمین کے ساتھ ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور ایسے اداروں کا علم وہاں کے ملازمین کو بخوبی ہے۔ خداراہ اگر آپ بھی کسی ایسے ادارے میں کام کرتے ہیں تو حکومت وقت کو برا بھلا کہنے کی بجائے اس چھوٹے تعلیمی مافیا کے خلاف جائیں جو نہ صرف آج آپ کو معاشی مشکلات میں دھکیل رہا ہے بلکہ آئندہ ہ آنے والی ہماری نسل کو تربیتی لحاظ سے بہت کھوکھلا کر سکتا ہے۔۔۔۔ والسلام

تحریر سے متعلق اپنی قیمتی رائے ضرور دیجیے گا۔ شکریہ

/ Published posts: 5

محمد عمر فیاض تعلیم: ایم فل مشغلہ: اچھی کتب کا مطالعہ کرنا اہم بات: زندگی میں خود کو اچھی چیزوں کو سیکھنے میں مصروف رکھیں کیونکہ تربیت سے خالی انسان کے لیے تعلیم بھی مؤثر نہیں -

Facebook