یاد رہے

In ادب
March 25, 2022
یاد رہے

ہمارا رُتبہ، تُمہارا مقام یاد رہے
خِرد سے دُور تُمہیں عقلِ خام یاد رہے

ادا کِیا تو ہے کِردار شاہ زادے کا
مگر غُلام ہو، ابنِ غُلام یاد رہے

ابھی ہیں شل مِرے بازُو سو ہاتھ کِھینچ لِیا
ضرُور لُوں گا مگر اِنتقام یاد رہے

نہِیں ابھی، تو تُمہیں جِس گھڑی ملے فُرصت
ہمارے ساتھ گُزارو گے شام یاد رہے

خمِیر میں ہے تُمہارے، بڑے بُھلکّڑ ہو
ابھی لِیا ہے جو ذِمّے تو کام یاد رہے

جو اپنے آپ کو شُعلہ بیاں بتاتے تھے
سو دی ہے اُن کی زباں کو لگام یاد رہے

بِچھڑ تو جانا ہے اِتنا گُمان رہتا ہے
لبوں کی مُہر، دِلوں کا پیام یاد رہے

یہ مُعجزہ بھی کوئی دِن تو دیکھنے کو مِلے
ہمارا ذِکر تُمہیں صُبح و شام یاد رہے

بجا کہ زیر کِیا تُم نے اپنے دُشمن کو
سنبھل سنبھل کے رکھو اب بھی گام یاد رہے

نہ ہو کہ اور کہِیں دِن کا کھانا کھا بیٹھو
ہمارے ساتھ ہے کل اِہتمام یاد رہے

رشِید اُن کو کوئی بات یاد ہو کہ نہ ہو
مگر تُمہارا وہ جُھک کر سلام یاد رہے

رشِید حسرتؔ