رخصتی از صائمہ نور

In افسانے
April 10, 2022
رخصتی از صائمہ نور

کہانی رخصتی
از صائمہ نور

قسمت جو کسی کے تابع نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ کہا جائے ہم سب قسمت کے تابع ہیں تو بلکل بھی غلط نہیں ہوگا،قسمت اگر بدلی جا سکتی ہے تو صرف اور صرف دعا سے یا تدبیر سے ،مگر کبھی کبھی تدبیر بھی کارگر ثابت نہیں ہوتی کیونکہ موت وہ اٹل حقیقت ہے جس کے سامنے سب تدبیریں بے سود ثابت ہوتی ہیں۔
___________

سفید قبائیوں میں ملبوس ہیولے در و دیوار پہ سایہ فگن تھے،سب کچھ دھندلا سا دکھائ دے رہا تھا ۔
میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی ،کسی نے میرا ہاتھ تھاما اور سفید دری پر بٹھا دیا،میں نیم بے ہوش سی ہو رہی تھی کوئ انجانہ سوگوار جذبہ میرے حواسوں پہ سوار تھا اور مجھے غم کی کھائیوں کی طرف دھکیل رہا تھا ۔۔
___________

اٹھیے امی نماز کا وقت نکل رہا ہے ۔
مہوش کے زور زور سے پیر ہلانے پر ۔رقیہ بیگم گہری نیند سے جاگیں آنکھ کھلتے ہی مہوش دکھائ دی جو نماز کی پابند تھی اور نماز عصر کے لیے وضو کئے کھڑی تھی،امی کیا دیکھ رہیں ہیں جلدی اٹھیں پھر بازار جانا ہے اپکو معلوم ہے میرے پاس بالکل وقت نہیں ہے پھر آکر کتنے کام کرنے ہیں ۔
مہوش میڈیکل کے فائنل ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی اور اس بات میں قطعی کوئی شک نہیں تھا کہ اس کے مصروف شیڈول کے سبب اسکے پاس وقت کی شدید کمی تھی ۔
مگر کچھ دنوں سے مہوش کی یہ “میرے پاس وقت نہیں ہے کی تکرار ” کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔
رقیہ بیگم حد سے زیادہ حساس طبیعت رکھتیں تھیں اسی لیے مہوش کے منھ سے بار بار یہ تکرار سن کر انکا ذہن الجھ جاتا ۔
ابھی تو نماز کو دیر ہو رہی تھی اور انہیں شاپنگ پر جانا تھا ۔
چونکہ مہوش کے فائنل ائیر کے امتحانات کے فورا بعد اسکی شادی کی ڈیٹ رکھ دی گئی تھی ۔
اسی سلسلے میں بازار امدو رفت زور و شور سے جاری تھی۔
آج واپس ا کر سمجھاؤں گی انہوں نے وضو کرتے ہوئے سوچا۔
__________

بازار سے واپسی پر مہوش اور رقیہ بیگم خریدے ہوئے کپڑے پھلائے بیٹھیں تھیں تاکہ انکی دوسری دو بیٹیاں بھی دیکھ سکیں ۔
مہوش اب تمہارے کتنے جوڑے رہ گئے ؟
رقیہ بیگم نے استفار کیا۔
امی آپ مجھے کتنے جوڑے دیں گی مہوش نے انہیں چھیڑا ۔
بیٹا یوں تو جتنے تم لینا چاہو۔ رقیہ بیگم نے فراخ دلی سے کہا وہ انکی پہلوٹھی کی لاڈلی اولاد تھی ۔
انکا بس نہیں چلتا کہ چاند ستارے اسکے نصیب میں ٹانک دیتیں ۔
امی جوڑے تو کافی ہو گئے مگر ایک بات بتائیں ؟
بولو بیٹا ۔
امی جہیز میں بیٹی کو جب اتنا کچھ دیتے ہیں بلکہ سب کچھ ہی تو دیتے ہیں تو پھر کفن کیوں نہیں دیتے؟ مہوش نے سادگی سے کھوئے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
مہوش نے ایک غیر متوقع سوال کیا جو رقیہ بیگم کے دل کو دہلا گیا ،اب وہ بہت سخت سرزنش کریں گی مہوش کی جب وہ دونوں اکیلی ہونگیں ۔
انہوں نے سوچا،پتا نہیں کیوں شادی کی تیاری میں وہ دلچسپی تو لے رہی تھی مگر اتنی خوش نہیں تھی یا انکا وہم تھا..!
___________

مہوش گھر پہنچی تو شدید حواس باختہ تھی ۔
کیا ہوا باجی سب خیریت ہے مہوش کی چھوٹی بہن نے اسکے چہرے پر غیر معمولی ہوائیاں اڑتے دیکھا تو فورا پانی لے آئی اور ساتھ ہی سوال بھی کیا۔
ہاں خیریت ہے مہوش نے پانی کا گلاس تھام کر جواب دیا۔
کیا ہوا مہوش امی جو اپنی بیٹیوں کی گفتگو سن رہی تھیں فورا وہاں آ گئیں ۔
امی آج میرا بہت برا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے رہ گیا ۔
مہوش نے حقیقت بتائی ۔
اوہو کیا ہوا؟
امی ایک صاحب مجھے اوور ٹیک کر رہے تھے میں نے گاڑی سائڈ پر کرنی چاہی تو پوری گاڑی ایک طرف ڈھلک گئی ،پتا نہیں کیسے خودبخود سیدھی ہوئی بس یوں سمجھیں کسی نادیدہ طاقت نے گاڑی کو سیدھا کیا۔
وہ صاحب بھی ڈر گئے اور گاڑی روک کر کہنے لگے کہ “محترمہ اپنا صدقہ وغیرہ دیں موت کے منھ میں سے واپس آئیں ہیں آپ ”
مہوش نے انہیں پوری روداد سنائی۔
بس آج سے تم گاڑی نہیں چلاؤ گی ،پو ائنٹ سے یونی جاؤ گی میں نے کہہ دیا۔مگر امی ۔۔نہیں نہیں آج کتنا برا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے رہ گیا تمہارا تم تھکی ہوئی ہوتی ہو بس اب کوئ اور بات نہیں۔۔وہ ہار مانتے ہوئے سر ہلانے لگی پتا نہیں کیوں امی کو بتایا آج کے ایکسیڈنٹ کے متعلق ،شاید وہ خود بھی ڈر گئ تھی اس لیے امی کو بتا دیا تھا۔
_________

مہوش باجی آپکو ایک کام کہا تھا ،مگر آپ وہ نہیں کر سکیں ۔
مہوش کی چھوٹی بہن مہک نے کچھ چیزیں منگوائی تھیں مہوش سے جو مہوش بہت دیر ہونے کے سبب نہیں لا سکی تھی۔
تو اب وہ بہت سخت الفاظ میں گلا کر رہی تھی۔
سوری چندا مجھے یاد تو تھا مگر وقت نہیں ملا ۔
چلا ابھی لے آتے ہیں وہ شدید تھکن کے باوجود بولی۔
نہیں اب رہنے دیں کیا فایدہ میں اب کل خود بھی لے سکتی ہوں ۔
مہک نے منھ بنایا مہوش کو بہت محسوس ہوا مگر اب وہ کیسے اسے مناتی۔
مہک اب اس سے کم ہی بات کرتی ۔
مہک ایسی ہی تھی اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر بہت غصہ آتا اور وہ غصہ کئی دن قائم رہتا۔
__________

مہوش نے پوائنٹ سے آنا جانا شروع کر دیا تھا مگر ایک مخصوص اسٹاپ تک اسے سکس سیٹر سے جانا پڑتا پھر مطلوبہ پوائنٹ ملتی ۔
اور آج پھر وہی ہوا وہ یونی سے واپسی پر مین روڈ پر اتری اور گھر کے لیے رکشہ لیا اور رکشہ کسی زور دار چیز سے ٹکرا کر ہوا میں اچھلتا ہوا دو بار الٹا ،اسکی جان جیسے نکل کر واپس آئ وہ سہم گئ ،مگر آج امی کو بتانے کی ہمت نہ کر سکی کہ امی یونی ہی چھڑوا دیں گی۔
__________

رقیہ بیگم صبح فجر کے وقت ناشتہ ہاٹ پاٹ میں بنا کر دکھ دیتیں اور بچے مطلوبہ وقت پر اپنا اپنا ناشتہ کر کے یعنی ورسٹی یا کالج روانہ ہو جاتے ۔
آج بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔
مگر سوتے میں اچانک انکے دل کو کچھ ہوا جیسے کسی نے سینے میں سے نکال دیا ہو ،یکدم انکی آنکھ کھلی ،گیٹ زور سے بند ہونے کی آواز آئ ،ضرور مہوش نکلی ہوگی انہوں نے خود کلامی کی اور اسکے پیچھے لپکیں مگر وہ جا چکی تھی وہ گیٹ پر کھڑی ہو گئیں اور کھڑی رہیں جب تک مہوش نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئ۔
انہوں نے کچن میں آ کر ہاٹ پاٹ دیکھا تو ناشتہ یونہی پڑا تھا انہیں مہوش کی لاپرواہی پر سخت غصہ آیا ۔
آج واپس آ جائے خوب خبر لوں گی ۔
رقیہ بیگم نے سوچا۔
_________

ریلوے کراسنگ پر کھڑی مہوش نے سامنے کھڑی اپنی پوائنٹ کو دیکھ لیا تھا اور بار بار گھڑی دیکھ رہی تھی اور شدید بے چین تھی،یہ انجن کب گزرے گا ،پوائنٹ مس ہو گیا تو بہت لمبی خواری اٹھانی پڑے گی ۔۔
__________

مہک اپنی یونی ورسٹی میں پہنچی ہی تھی کہ اسکا موبائیل بجا ۔
گھر کا نمبر دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئی۔
ابھی تو گھر سے آئی ہے ۔
اس نے پریشانی سے فون اٹھایا۔
اسکی چھوٹی بہن رمشا تھی۔
وہ بہت مشکل سے بات کر رہی تھی۔
مہک فورا گھر آ جاو ۔
مگر کیوں کیا آفت آ گئی ہے ۔
مہک نے غصے سے پوچھا ۔
مہک زیادہ سوال جواب نہیں کرو فورا گھر او۔
میں ابھی یونی آئی ہوں ،میرے بے حد اہم پریکٹیکل ہیں آج ۔
میں وہ نہیں چھوڑ سکتی جب تک تم مجھے بتاؤ گی نہیں کہ کیا ہوا ہے ۔
مہک اپنی طبیعت کے بچپنے کے باعث رمشا کی سنجیدگی محسوس کئے بغیر بضد تھی کہ اسے فورا گھر بلانے کی وجہ بتائی جائے۔
رمشا کے پاس اسے بتانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
بہت مشکل سے خود کو سنبھالتی رمشا نے مہک کو اصل بات بتائی تو اسکے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔
موبائیل اسے ہاتھ سے گر گیا ۔
وہ کیسے کتنی مشکل سے گم ہوتے حواس لیے گھر پہنچی کہ اسے لوگوں نے اٹھا اٹھا کر اسکا موبائیل اور دوپٹہ دیا۔
وہ اپنی بہن سے ایک ہفتے سے ناراض تھی ۔
اسے شدید غم نے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا تھا۔
___________

رقیہ بیگم آج پورا دن جلے پاؤں کی بلی کی طرح پورے گھر میں گھوم رہی تھیں ۔
انکے دل کو جیسے پنکھے لگے ہوئے تھے۔
کسی پل انکو قرار نہ تھا ۔
وہ بار بار مہوش کے بارے میں سوچ رہی تھیں ۔
شادی کے پورے چھ سال بعد پیدا ہونے والی مہوش انہیں اپنی باقی تمام اولادوں سے پیاری تھی۔
کچھ دن بعد مہوش کو رخصت ہو کر اس گھر سے چلے جانا تھا ۔
یہ سوچ کر ہی انکا دل دکھ سے بھر گیا ۔
بیٹیاں تو ہوتی ہی پرائی ہیں انہوں نے خود کو بہلایا ۔
مہوش بہت ہی نیک فطرت سادہ ،اور معصوم سی تھی۔
وہ نماز کی خود تو پابند تھی ہی مجال ہے کہ اسکے ہوتے ہوئے گھر کا کوئی اور فرد نماز چھوڑنا تو دور محض نماز میں تاخیر بھی کر دے ۔
مگر اسکی قسمت ہمیشہ اسے مختلف طرح سے آزماتی چلی آئی تھی جیسے اسکے ڈاکٹر بننے کا خواب ۔
اور صرف مہوش کا۔ہی نہیں خود رقیہ بیگم اور سجاد صاحب کو بھی جنون کی حد تک لگاؤ تھا کہ انکی بیٹی ڈاکٹر کہلوائے۔
مہوش نے انٹر کے امتحانات میں سخت محنت کی تھی مگر کچھ ہی نمبروں سے وہ میڈیکل کالج میں داخلے سے رہ گئی تھی۔
جس کا اسکو شدید صدمہ پہنچا تھا ۔
اسنے بی ایس سی میں داخلہ تو لے لیا تھا ۔
مگر وہ پھر پڑھائی سے وہ ناطہ نہیں جوڑ پائی ۔
اس بات کا رقیہ اور سجاد کو احساس تھا ۔
انہیں اپنی بیٹی کی خوشی ہر بات سے زیادہ عزیز تھی۔
سجاد صاحب نے کسی جاننے والے سے بات کی تو انہوں نے تسلی دلوائی کے وہ اگلے سال ضرور مہوش کے داخلے کے لیے کوشش کریں گے۔
اور جب اگلے سال داخلے کا وقت آیا تو انہوں مہوش کے میڈیکل کالج میں داخلے کے ایوض دس لاکھ کا مطالبہ کر دیا ، سجاد صاحب کھاتے پیتے کاروباری آدمی تھے ،انہوں نے کسی طرح یہ رقم مہیہ کر دی تھی ۔
اور یوں مہوش کو شہر کے بہترین میڈیکل کالج میں داخلہ مل ہی گیا تھا۔
انہیں اپنی اس بیٹی سے خاص ہی لگاؤ تھا ۔
اور اب وہ ڈاکٹر بننے والی تھی۔
مگر کچھ دنوں سے وہ بہت ہی عجیب و غریب رویہ اختیار کئے ہوئے تھی جیسے اسے کہیں جانے کی جلدی ہو۔
وہ ہر وقت جلدی میں رہتی اور بار بار اسکا ذکر کرتی ۔
دوسری طرف رقیہ بیگم کو ہر وقت اٹھتے بیٹھتے جیسے ہول سے اٹھتے ۔
وہ قرآن کھولتیں تو ایسی کوئی آیت سامنے آتی جس میں صبر کی تلقین ہوتی ۔
وہ نا سمجھیں سے پڑھتیں۔
انہیں لگتا کہ مہوش سے حد فرجہ لگاو رکھنے کی وجہ سے وہ اسکی شادی کو۔لے کر بہت حساس ہو رہی ہیں۔
اسی لیے انکی یہ حالت ہے ۔
مگر انہوں نے اسکا ذکر کسی سے نہیں کیا کیونکہ وہ کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔
مگر آج ،اج وہ خود پر اور اپنی بے ہنگم سوچوں پر قابو پانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھیں۔
اور مہوش کو بھی وہ سبھاؤ سے سمجھائیں گی کہ تھوڑی آرام و تحمل سے ہر کام کیا کرے ۔
انہوں نے تہیہ کر لیا تھا۔
وہ صبح سویرے سے ہی دن گزرنے کا انتظار کرنے لگی تھیں۔
____________

مہوش شدید اضطراب میں کھڑی تھی۔
اس پر انجان سی وحشت سوار تھی ۔
جیسے اسے کہیں پہنچنے کی بہت جلدی تھی۔
جیسے وہ یہاں سے کہیں دور نکل جانا چاہتی ہو۔
وہ بے انتہا سمجھدار تھی مگر اس وقت اسے لگا جیسے اسکی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحتیں مانند پڑ گئی ہوں۔
انجن آہستہ تھا اس نے سوچا کہ وہ جلدی سے کراس کر سکتی ہے تاکہ اسکا پوائنٹ مس نہ ہو اس نے قدم بڑھا دیے۔
اے لڑکی رک جا انجن کو گزرنے دے۔
وہاں کھڑے ایک بزرگ نے اسے آواز دی
سوری انکل میرا پوائنٹ مس ہو جائے گا۔۔۔
وہ کہہ کر آگے بڑھنے لگی اور جلدی سے پٹری کراس کرنے لگی اور بس پٹری کے آخری سرے پر ہی تھی اور ایک قدم ہی رہ گیا تھا کہ انجن اس کے سر سے ٹکرایا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گئی۔
________

وہ حجاب کرتی تھی ۔
مگر کچھ بزرگ اسی کے محلے کے تھے جو اسے پہچانتے تھے ۔
سامنے کھڑی پوائنٹ میں موجود اسکے دوست بھی اسے دیکھ چکے تھے جو فورا نیچے اتر کر اسکے پاس آئے اور ایمبولینس کو بلایا۔
مگر وہ تو انجن سے ٹکراتے ہی جاں بحق ہو چکی تھی ۔
اور کب سے اسکا تعاقب کرتی موت آج بالآخر فتحیاب ہو گئی تھی۔
________

مہوش کی موت کی خبر سے پورے گھر میں کہرام مچ گیا تھا۔
رقیہ بیگم تو جیسے اپنے حواسوں میں نہیں رہی تھیں۔
اب انہیں سب سمجھ آ رہا تھا کہ کیوں انہیں باد بار صبر کی تلقین ہو رہی تھی۔
انہیں خوابوں میں اشارے مل رہے تھے۔
مہک جو اپنی مرحومہ بہن سے اس دن سے ناراض تھی اور لیے دئیے رہنے لگی تھی اب شدید پچھتاوں کی زد میں تھی۔
مہوش کی رخصتی تو کچھ دن بعد ہونا تھی ، وہ سب ذہنی طور پر تیار بھی تھے ۔
لیکن کسی کو خبر نہ تھی کہ مہوش کو اپنی رخصتی کی اسقدر جلدی ہوگی ۔
اور وہ ان سب کو یوں روتا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے منوں مٹی تلے جا سوئے گی۔
ختم شد