دوسرا موڑ

In افسانے
April 10, 2022
دوسرا موڑ

دوسرا موڑ

اس کا نام حریم تھا اور عمر 16 سال تھی اسکول میں اس کا آخری سال تھا میرا اور اس کا قریبی تعلق صرف دو سال پرانا تھا اس سے پہلے بھی میں اسے دیکھتی ضرور تھی پر بات شاذو نادر ہی ہوتی تھی میری حیثیت اسکول میں سینئر ٹیچر کی تھی حریم کا شماراسکول کی ان چند ایک پر جوش لڑکیوں میں ہوتا تھا جو ہر میدان میں آگے رہنے کی متمنی ہوتی تھیں کلاس میں ٹاپر کھیل کے میدان میں فاتح اور شاعری ڈیبیٹس کے مقابلوں میں سب کی ہر دلعزیز ۔ ہر ٹیچر کی پسندیدہ تو ہر لڑکی اس سے مرعوب تھی ۔ بے حد فیشن ایبل ۔ صرف اسی بات پر وہ اکثر ٹیچر سے ڈانٹ کھاتی تھی کہ یونی فارم میں ہونے کے باوجود اس کے سٹائل میں فیشن کی جھلک نمایاں ہوتی تھی ۔ اسکی عمر کی دوسری لڑکیاں اسکول آتے جاتے چادر یا دوپٹہ استعمال کرتی تھیں لیکن میں نے اسے کبھی دوپٹے میں نہیں دیکھا وہ صرف یونیفارم کی وی ہی استعمال کرتی تھی اور اکثر چھٹی کے وقت وہ بھی اس کے کندھے پر جھول رہی ہوتی تھی ۔ بال کھل جاتے تھے اس کے شوخ قہقہے اکثر گیٹ کے پار کھڑے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھتے تھے ۔

سکول کی میڈم سے لیکر چپڑاسی تک ہر کسی سے اسکی اچھی بنتی تھی لیکن میرے اور اس کے درمیان ایک تناؤ ہمیشہ قائم رہا تھا اس نے بظاہرمجھ سے کبھی بھی بدتمیزی نہیں کی تھی پر سکول میں چلتے پھرتے وہ اپنی سہیلیوں سے بات کرتے اونچی آواز میں مجھے تنقید کا نشانہ بنایا کرتی تھی جس کی واحد وجہ مجھے یہی سمجھ آئی تھی کہ میرے پردے اور گاہے بگاہے کلاس میں بچیوں کو اخلاقی طور پر اچھے برے کا فرق سمجھاتے رہنا تھا ان باتوں سے کلاس میں اکثر بچیاں متاثر ہوتی تھیں اور اکثر ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتیں لیکن حریم واحد ایسی تھی جو اکثر بحث کرتی اور پردے کو تنقید کا نشانہ بناتی تھی کبھی کبھی میرے دل میں آتی تھی کہ میں اسے قائل کروں پر میں نے کبھی یہ کوشش نہیں کی کلاس کو ٹینشن کے ماحول سے بچانے کے لئے اسے درگزر کر دیا کرتی تھی ۔مگر پچھلے تین چار ماہ سے یہ سلسلہ زیادہ ہی ہو گیا تھا شاید میرے درگزر نے اس کی ہمت بڑھا دی تھی انہی دنوں اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہوئی تو میں نے پہلی بار اس کی ماں کو دیکھا دلکش اور نفیس عورت سلیقے سے چادر میں لپٹی ہوئی وہ میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی چند ایک نصابی باتوں کے بعد وہ کہنے لگی میں یہاں صرف آپ کو دیکھنے آئی تھی میرے وجہ پوچھنے پر کہنے لگی بس ویسے ہی ۔ حریم بہت ذکر کرتی ہے آپ کا ۔ پھر کچھ ہچکچاتے ہوئے پوچھنے لگی آپ کو کوئی شکایت تو نہیں اس سے ۔میں سمجھ گئی کہ وہ گھر میں بھی میرے خلاف بولتی رہتی ہوگی ۔ میں چند لمحے اس کی ماں کو خاموشی سے دیکھتی رہی ۔آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ وہ کامیاب ہوجائے گی ۔ میرے سامنے بیٹھی عورت ندامت کی تصویر ہو گئی ۔

اگلے کچھ دنوں میں مجھے حریم کا روئیہ بدلہ ہوا لگا اب وہ مجھے طنز بھری نظروں سے نہیں دیکھتی تھی بلکہ ایک سختی اور جھنجھلاہٹ بھرا تاثر اس کی نگاہوں میں اٹہرا تھا ۔ دلوں کے حال خدا بہتر جانتا ہے اس کی لاکھ میرے لئے ناپسندیدگی کے باوجود میں اسے نا پسند نہیں کر سکی تھی وہ میری دعاؤں میں سب سے زیادہ شامل رہتی تھی اور نہ جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ اس کے دل کی کایا پلٹ جائے گی ۔ اس سے پہلے کہ میٹرک کلاس فارغ ہوتی ایک دن وہ میرے پاس آ گئی اس نے اپنے رویوں کی مجھ سے معافی نہیں مانگی ۔ کہنے لگی اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ میں نے آپ کے ساتھ غلط کیا تو آپ نے مجھے سمجھایا کیوں نہیں ایک لمحے کو تو دل چاہا کہ اسے خوب ڈانٹوں پر میں جوش پر ہوش کو ترجیح دینے کی عادی تھی میں نے اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا ۔ کیا ضروری ہے سمجھانے کے لیے لفظوں کا سہارا لیا جائے ۔ وہ کچھ نہیں بولی پر نگاہ جھک گئی ۔ مجھے لگتا ہے ٹیچر یہ پردہ مذہب کی چادر ہے ہے جو آپ جیسی عورتیں ہر وقت خود پر چڑھائے رکھتی ہیں یہ ایسی دیوار ہے جو ہمیشہ آپ کے اور میرے بیچ حائل رہی ہے مجھے یہ بات عجیب لگتی ہے کہ ۔۔۔ کہ وہ تذبذب میں مبتلا ہوکر انگلیاں مروڑنے لگی ۔ اس کی بات نے مجھے شدید حیرت سے دوچار کیا تھا لیکن جلد میں نے اپنی حیرت کو قابو کر لیا ۔ تم مجھ سے اپنے دل کی ہر بات شیئر کر سکتی ہو ۔ اس کی آنکھوں میں ممنونیت کی جھلک ابھری ۔ مجھے لگتا ہے ٹیچر ہم پردے سے چہرہ چھپا سکتے ہیں لیکن خود کو خواہش سے نہیں روک سکتے ۔ کپڑے کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا مرد کی نگاہ اور عورت کے چہرے کے درمیان آڑ ہو سکتا ہے پر عورت کی نگاہ اور مرد کے وجود کے درمیان کچھ حائل نہیں ہوتا نہ ہی دل پر پردہ ڈالا جا سکتا ہے پھر صرف اور صرف چہرہ چھپا لینے سے کیا فائدہ ۔

سولہ سالہ لڑکی کے منہ سے نکلنے والی یہ باتیں میرے لیے تعجب خیز تھیں میرے گلے کی گلٹی ابھر کر ڈوب گئی مجھے لگا کہ لفاظی کے پردے میں وہ مجھے اپنے دل کا راز بتا گئی ہے میں نے دل ہی دل میں خدا سے مدد چاہی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک سپورٹس میگزین تھا جس کے سرورق پر ایک کرکٹ اسٹار کی تصویر نمایاں تھی میں نے اس کے ہاتھ سے میگزین لے کر تصویر والا پیج پھاڑ دیا ۔ چیزوں کی کشش اس وقت تک ہوتی ہے جب تک ہم انہیں دیکھتے رہتے ہیں لیکن جب ہم ایک شعوری کوشش کرکے اس خاص چیز یا منظر یا انسان سے نظر پھیر لیتے ہیں تو آہستہ آہستہ اس کی کشش ماند پڑ جاتی ہے بہت جلد اسے دیکھنے پر اکساتی چبھن کا احساس بھی ہمارے اندر سے نکل جاتا ہے ۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے ایک نیا احساس ہمارے اندر بھر جاتا ہے اور وہ احساس ہوتا ہے شرمندگی کا پشیمانی کا ۔ پھر یہ شرمندگی پشیمانی کسی بھی نئی چیز اور احساس کو ہمارے اندر گھر کر جانے سے روکے رکھتی ہیں میں نے اس کے سامنے اس تصویر کے پرزے پرزے کیے اور قریبی ڈسٹ بن میں پھینک کر وہاں سے چلی گئی لیکن مجھے یقین تھا اس کی نظر بہت دور تک میرے ساتھ رہی تھی ۔

اس دن کے بعد وہ مجھے اسکول میں کبھی نظر نہیں آئی لیکن تقدیر نے ہماری ایک ملاقات مزید طے کی ہوئی تھی جب دس سال بعد میں اپنے بھائی سے ملنے کراچی آئی تو ایک شاپنگ سینٹر میں پیچھے سے کسی کی صدا پر مجھے رکنا پڑا میں اسے نہیں پہچانی پر وہ مجھے میرے نقاب اور حجاب کے سٹائل سے پہچان گئی تھی اس نے مجھے اپنے شوہر اور دو چھوٹے چھوٹے بچوں سے ملوایا ۔ وہ مجھ سے مل کر بچوں کی طرح خوش تھی اس کا شوہر بچوں کو پلے ایریا کی طرف لے گیا تو وہ مجھے کیفے ٹیریا کی طرف لے آئی ۔ مجھے اس میں کچھ تبدیلی سی محسوس ہوئی تھی وہ مجھ سے اسکول کی باتیں پوچھتی رہی اور اپنی زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کا بھی بتاتی رہی ۔ لڑکی سے عورت پن کا بہت واضح فرق چھلک رہا تھا اس کی ذات سے ۔ مجھے چونکہ جلدی گھر پہنچنا تھا اس لئے میں جلد وہاں سے اٹھ گئی لیکن جاتے جاتے اس نے ایک عجیب بات مجھ سے کہی ۔ ٹیچر اگر آپ اس دن میرے سامنے وہ تصویر نہ پھاڑتیں تو شاید آج میں خواہشات نفس کے پیچھے بھاگتی ایک ایسی دنیا میں جا بسی ہوتی جہاں رہنے والیاں عزت و احترام کی دنیا میں بسنے کے خواب دیکھتی ہیں میں آپ کی احسان مند ہوں کہ آپ نے مجھے نگاہ کی حفاظت اور خواہش سے روکنے کا درس دے کر میری زندگی کو بہت بڑی تباہی سے بچا لیا ۔ یہ کہہ کر وہ مجھے الوداع کہتی پلے ایریاکی طرف بڑھ گئی ۔ لمحہ لمحہ مجھ سے دور جاتی حریم نے مجھے حیران کردیا تھا سب سے زیادہ حیرت مجھے یہ دیکھ کر ہوئی تھی کہ اس کا وجود بڑے سے دوپٹے سے ڈھکا تھا اور سر اور چہرہ حجاب سے کور تھا ۔

از
کرن نعمان