ڈائری کا ایک ورق

In افسانے
April 18, 2022
ڈائری کا ایک ورق

ڈائری کا ایک ورق

رات اللہ تعالی سے دعا مانگ کر سوئی تھی کہ تہجد کے لئے آنکھ کھل جائے اور اللہ تعالی نے دعا قبول کر لی۔ جب سے بڑی بہن کی طبیعت خراب ہوئی ہے ایک بے چینی سی ہر وقت دل کو لگی رہتی ہے۔نہ جانے کیوں یہ احساس دل کو جکڑنے لگا ہے کہ وقت کی ریت ہاتھوں سے تیزی سے پھسلتی جارہی ہے۔ اپنوں سے بچھڑنے کے لمحے اب قریب سے قریب تر آتے جا رہے ہیں ۔

فجر کے بعد زندگی کے معمولات روز کی طرح جاری رہے میاں جی قرآن پڑھتے رہے اور میں زینب کو سکول بھیجنے کی تیاری میں لگی رہی ۔ناجانے یہ بچے بڑے ہوکر بھی بچہ ہی کیوں بنا رہنا چاہتے ہیں۔لاکھ کہنے کے باوجود زینب نے بال بھی مجھ سے بنوانے ہیں اور بیگ بھی مجھے سے سیٹ کروانا ہے وہ سکول چلی گئی تو میاں جی کافی دیر بات کرتے رہے ورنہ تو فیس بک چیک کرتے رہتے ہیں ۔انھوں نے لاہور جانے کا پکا فیصلہ کرلیا تھا تب سے میرے دل کی کیفیت عجیب ہے ان کے کام کی نوعیت بہت ٹف ہے اس لیے میں خود چاہتی ہوں کہ وہ اپنی روٹین سے کچھ باہر نکلیں اور اپنی زندگی کو انجوائے کریں اپنے دوستوں میں وقت گزاریں ، اپنی پسند کی جگہوں پر جائیں اور اپنی زندگی کو کمانے کی ٹینشن سے تھوڑا آزاد کریں ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ میرے لیے ان کے بغیر وقت گزارنا بہت ہی مشکل ہے وہ سارادن گھر نہیں ہوتے پر پھر بھی انکے ہونے کا احساس رہتا ہے پر جب لاہور چلے جاتے ہیں تو زندگی بالکل خالی خالی سی لگنے لگتی ہے ۔

آج بھی وہ اپنے ٹائم پر آفس چلے گئے ۔دو دن کی چھٹی کے بعد سلمی باجی (میری میڈ) کام پر آگئیں انکے آتے ہی ایسا لگا جیسے زندگی میں بہار آگئی۔حالانکہ میں ان سے زیادہ کچھ نہیں کرواتی مگر پھر بھی صفائی اور باتھ روم کی دھلائی ایک بہت بڑاکام ہوتا ہے۔میں ساتھ مل کر گھر سمیٹتی رہی برتن دھوئے اور پھر وہی خواتین کا عالمی مسلہ کہ آج کیا پکائیں ۔رات کڑھی بنائی تھی اور ابھی بچیوں کی فرمایش پر اس کے سات چاول بگھارنےتھے پر رات کے لیے تو کچھ نہ کچھ بنانا تھا ۔ میں چاہتی تھی جلدی سے بنا لوں تاکہ میاں جی کے آنے سے پہلے تیار ہو جائے ۔جب کچھ جلدی بنانا ہو تو لے دے کے ایک چکن ہی رہ جاتا ہے جو بچے شوق سے کھا لیتے ہیں۔زینب سکول سے خوشی خوشی گھر آئی تو پتہ چلا رزلٹ آگیا اور وہ ففتھ آئی تھی ۔بچے پڑھائی میں اچھے ہوں تو ماں باپ خوش ہوتے ہیں پر ہم دونوں زیادہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ نہ میاں جی پڑھنے میں اچھے تھے نہ میں انھیں کرکٹ کا جنون تھا اور مجھے ناولوں رسالوں کا۔

تین بجے تک وہ گھر آگئے کھانا کھا کر آئے تھے بلکہ اپنے ہاتھوں سے قیمہ شملہ مرچ بناکر شاگردوں اور پڑوسیوں کو کھلا کر آئے تھے اور پھر اپنی تعریفوں کی داستانیں۔خیر اب تو سہنا آہی گیا ہے اور دل اس بات پر راضی بھی ہوگیا ہے کہ لاکھوں لوگوں سے بہت اچھا کھانا بنالیتے ہیں بشمول میرے۔ساڑھے تین تک ہم گھر سے نکل گئے ہاسپٹل کے لیے ۔بڑی بہن کا ستا ہوا چہرہ دیکھ کر دل بیٹھ گیا ایک شہر میں رہنے کے باوجود کتنے کتنے عرصے بعد ایک دوسرے کو دیکھنا نصیب ہوتا تھا ۔کبھی مجھے اپنی اس بڑی بہن پر بہت غصہ آتا اور کبھی بہت ترس بھی آتا ۔اب ایسی بھی کیا شوہر پرستی کہ وہ دن کو رات کہے تو رات اور رات کو دن کہہ دے تودن۔اپنی مرضی تو جیسے ان میں سے ختم ہی ہوگئ تھی۔اوپر سے ہمارے بھائی جان بھی شاہکار ہیں اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھنا ہی نہیں ایک زمانے میں انھوں نے دنیا گھومی تب سے وہ سمجھتے ہیں کہ جو وہ جانتے ہیں کوئی نہیں جانتا اسی لیے میاں جی ان سے زیادہ ملنا پسند نہیں کرتے۔پر اب باجی بیمار تھیں تو خود ہی ملوانے لے آئے تھے۔ ہم کافی دیر دوسرے بہن بھائیوں اور اپنے مرحوم والدین کو یاد کرتے رہے ۔گھر واپس آتے آتے تقریبا رات ہی ہوگئی۔ مغرب کی نماز کے بعد میاں جی کے جانےکی تیاری شروع کی صبح انھوں نے لاہور کے لیے نکلنا ہے۔ بھائی کو نان خطائی پسند ہے اس لیے کافی رات تک بیکنگ کرتی رہی ۔اخر کو صرف اپنے بھائی بہنوں کو ہی تو نہیں بھیجنی میاں جی کی بہن اور بھانجیوں کو بھی بھیجنی ہیں ۔دنیا کا سب سے اچھا شوہر بھی بیوی کو صرف اپنے بھائی بہنوں کو کھلانا پسند نہیں کرتا ۔ اور نہ ہی یہ پسند کرتا ہے کہ رات گئے تک بیوی لکھنے لکھانے میں مصروف رہے اور اسے توجہ نہ دے اس لیے ڈائری اب اپنے اختتام کو پہنچی ۔زندگی رہی تو کل اگلے صفحے پرایک نئے دن کی روداد قلم بند ہوگی ۔ان شاء آللہ

از
کرن نعمان