بھائیوں کے درمیان دراڑ

In افسانے
April 18, 2022
بھائیوں کے درمیان دراڑ

بھائیوں کے درمیان دراڑ ”
افسانہ
مشایم عباس

سرخ اینٹوں سے بنی اس سنہری دیوا ر پر نظریں جمائے وہ ایک عمیق سوچ میں ڈوبا حجرے کی آہنی دیواروں کے اس پار بجتی گھنٹیوں کے شور سے بالکل بے خبر تھا ۔۔۔ ” سبطین قعقاع ” بنو قعقاع قلعے کا اکلوتا مالک جس کے ایک اشارے پر بنو قعقاع کا ہر فرد حکم کی تعمیل کرنے آموجود ہوتا ، جسکی اجازت کے بناء کسی ذی روح کو پر مارنے کی اجازت نہ تھی ۔۔ بے شمار خزانوں کی کنجیوں پر دسترس رکھنے والا ،، سونے چاندی کی بو جسکے نتھنوں میں رچ بس کر گویا عادی ہوگئی تھی مگر بنو قعقاع کے اس مالک کی زندگی میں ایک کسک تھی ۔۔۔۔ اتنی امارت بھی جس زخم پر مرہم ثابت نہ ہوسکی ایسا ناقابل علاج زخم ۔۔۔۔۔۔ !
جس عہدے کی خاطر اس نے سگے بھائی کے خلاف چال چلی وہی عہدہ آج اسے سکون دینے سے قاصر تھا
✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩

کتنے گھنٹے ہوگئے تجھے یہ جوتی مرمت کرنے کیلئے دی ہے کم ذات انسان رکھ یہ کتاب اور میری جوتی مرمت کرکے دے “وہ دنیا وما فیھا سے بے خبر ہوکر اپنی پسندیدہ کتاب پڑھنے میں مگن تھا کہ ایک کرخت آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی “یمان قعقاع” کے وجود نے ایک لمحے میں خوابوں سے حقیقت کا سفر کیا تھا
جی سردار ابھی کرتا ہوں ” کھردرے ہاتھوں میں دبی کتاب کو تیزی سے لکڑی کی تپائی پر رکھا اور کمر سیدھی کرکے چمڑے کے تھیلے میں موجود جوتی باھر نکالی ، اس شخص نے رعب ڈالنے کی خاطر کمر پر کچھ دیر بعد پھر ایک دھپ رسید کی اور مزید سخت لہجے میں گویا ہوا
اپنی اوقات سے آگے کی نہ سوچا کر جوان ! کہاں تو چمڑے کی جوتیاں مرمت کرنے والا نیچ طبقہ غریب انسان اور کہاں یہ عظیم صفحات پر رنگے خوشبودار الفاظ، یہ پکڑ چاندی کے سکے “خود کو لفظوں کا قدردان کہلوانے والا لفظوں کے غلیظ تیر چلاکر سکوں کو پھینکتا واپس پلٹ گیا
اے نادان شخص میں فقط اس عرش والے کے آگے ایک بلند مرتبہ بندہ کہلوانا چاھتا ہوں ، آہ کاش لوگ انسانوں کی قیمت سونے چاندی کے بوسیدہ سکوں میں نہ تلاش کرتے ”
وہ شخص رخصت ہو چکا تھا یمان قعقاع پرسکون انداز میں خود سے ہمکلام تھا ۔۔۔
✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩✩

وہ دوشنبے کی شب تھی جب وہ بنو قعقاع کے مخالف دشمنوں کے قلعے پر حملہ آور ہونے کے بعد دشمنوں کو انکے انجام تک پہنچاکر اپنی فتح کی خبر اپنے والد ماجد کو دینے بنو قعقاع کے سنہرے قلعے میں داخل ہوا ہر سمت خلاف عادت سکوت تھا ،، بھائی کے حجرے کے سامنے سے گذرتا وہ کچھ پل رکا مگر کوئی آھٹ نہ پاکر وہ آگے بڑھا -بابا کے حجرے کے منقش دروازے جسکے باھر کئی محافظ تعینات تھے اسکے آتے ہی وا ہوئے اور وہ تیزی سے اندر داخل ہوا ،، بابا سرخ چہرہ لیے آگے بڑھے اور ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا حیرت پر حیرت۔۔۔

کیا فاتح کا استقبال یوں کیا جاتاہے ؟ اس نے سوالیہ نظروں سے ہر سمت دیکھا “سبطین قعقاع کی نظروں میں نفرت آمیز شعلے بھڑک رہے تھے ایک جانب بھابھی اپنی زیورات سے لدی گردن کو مزید اونچا کرکے فاتحانہ نظروں سے اسے تک رہی تھیں انکے دائیں طرف بھابھی کی شاطر بہن عاجزی کی تصویر بنی مگرمچھ کے آنسوؤں کے ذریعے ناظرین کے دلوں میں اپنے لئیے ہمدردی جگا رہی تھی ایک لمحے میں اسے تمام کہانی سمجھ آگئی تھی بھابھی اور انکی چالاک بہن حسد اور بغض کی چال میں فاتح ٹھری تھیں اور “یمان قعقاع” کئی عظیم الشان فتوحات حاصل کرکے بھی گویا ایک ہارا ہوا جواری ۔۔۔۔
ناھنجار شخص ۔۔۔۔! میں تمھیں ایک بادشاہ کا شہزادہ سمجھ کر ایک عزت دار مرد سمجھ رہا تھا مگر تف ہو تم پر اپنے ہی خاندان کی ایک بیٹی کی عزت پر تم نے کل رات حملہ کیا وہ معصوم اب تک اس قصے کو چھپائے پھررہی تھی ، اگر میں اسکی اپنی بہن سے ہونے والی گفتگو نہ سنتا تو مستقبل میں ایک نا اھل کو اپنے تخت کا حقدار بنانے کا فیصلہ کر بیٹھتا ۔۔۔ اس قلعے کے دروازے تم پر تا قیامت حرام ہیں “اپنی کرسی کا سہارا لیے انہوں نے جیسے ہی بات ختم کی لڑکھڑا کر دبیز قالین پر گر پڑے

میں “سبطین قعقاع” کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہوں “کپکپاتی آواز میں کہا گیا تھا اور سینہ بھینچے آخری سانسیں لینے لگیں
“یمان قعقاع کا وجود زلزلوں کی زد میں تھا ۔۔ باپ کی روح نکلنے کا ماتم کرتا یا بھائی کی سنگدلی کا
کئی گھونسوں اور لاتوں کی بارش میں اسے قلعے سے نکال پھینکا گیا تھا
بھائی کا دل بھائی کیلئے پتھر بن چکا تھا ،، قابیل کی داستان دھرائی گئی تھی ۔۔
کاش رشتوں میں اعتبار کی ایک مضبوط کیل ٹھونکی جاسکتی جسے کوئی شاطر اور حاسد نہ ادھیڑ سکتا ۔۔ بلکہ جو بھی اسے کھنچ کر نکالنے کی کوشش کرتا اسکے ہاتھ بھی زخمی ہوجاتے ۔۔۔!
یمان قعقاع لکڑی کے ڈبے سے ٹیک لگائے چمڑوں میں کیل ٹھونکتے سوچ رہا تھا