حکومت اور پی ڈی ایم کی جنگ ۔۔۔۔ اسٹیبلشمنٹ خاموش تماشائی!!!!!

In دیس پردیس کی خبریں
December 29, 2020

ہمارے ملک میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کا ایک اہم کردار رہا ہے خواہ الیکشن کے معاملے میں ہو یا ملک کے دوسرے اندرونی اور بیرونی معاملات میں۔۔۔۔۔ لیکن آج یہاں بات کرنے کا مقصد صرف اور صرف سیاست ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سیاست کے اندر بڑی ہلچل ہو رہی ہے اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایک راگ الاپ رہی ہیں کہ ملک میں بدترین کرپشن ہوئی۔

اور دوسری طرف حکومت کا یہ کہنا ہے کہ یہ جو تمام پارٹیاں اکٹھی ہوئی ہیں۔ یہ تمام کے تمام اپنی کرپشن بچانے کے لئے اکٹھی ہوئی ہیں۔ اب یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس تمام معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہے اور آگے مستقبل میں کیا کردار ادا کرے گی؟ میرے تجزیےکے مطابق اسٹیبلشمنٹ اس وقت جو حالات ملک کے اندر کشیدہ ہیں ان کو کسی طرح کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مگر کیونکہ ایک طرف پی ڈی ایم ایم کا سخت بیانیہ جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہے اور دوسری طرف حکومت کا پی ڈی ایم کے خلاف جو بیان ہے ان دونوں میں مماثلت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس وقت حکومت پر زور ڈال رہی ہے کہ حکومت پی ٹی ایم کے ساتھ اپنے تعلقات کو اچھا بنائے اور مذاکرات کرے لیکن اگر حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کرتی ہے تو حکومت کا جو بیانیہ تھا کرپشن کا تو کہا جائے گا کہ حکومت اپنے بیان سے ہٹ رہی ہے جو پی ٹی آئی کا ایک منشور بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔!

لیکن اب ملک کے حالات اتنے کشیدہ ہو چکے ہیں کہ حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس وقت کوئی اس طرح نئی ابھر کرآنے والی جماعت موجود ہے۔۔۔۔۔لیکن دوسری طرف یہ چہ میگوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ آل مسلم لیگ کو اکٹھا کرکے پی ٹی آئی کے خلاف کھڑا کیا جائے۔ جس کی مثال خواجہ آصف اور پرویز الہی کی ملاقات اور پچھلے پیر پاگارہ کے نمائندے اور شہباز شریف کی جیل میں ملاقات ہے۔۔۔ اور دوسری طرف پی ٹی ایم کے مختلف جماعتیں ہیں۔۔۔۔۔! وہ اپنے اپنے طریقے کے ساتھ اوراپنے اپنے سیاسی علم کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن، یہ جماعتیں بیک ڈور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرنے میں پیش پیش ہیں لیکن کیونکہ حالات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں اس وجہ سے ان کا کا کام بن نہیں رہا۔۔۔۔۔

اب آجائیں حکومت کی کارکردگی کی طرف تو ایک حکومت کی پالیسیوں میں ناکامی تو دوسری طرف پنجاب حکومت کی سیاست فلاپ ہونا ہے اور پنجاب کی سیاست میں بھی سب سے بڑی ان کی ناکامی وزیراعلی عثمان بزدار کی تعیناتی تھی۔۔ جس کی وجہ سے تنقید کا انہیں ہمیشہ سے سامنا رہا ہے۔ بہت چہ میگوئیاں ہوئی اور اوپر سے حکومت کے اوپر زور بھی ڈالا گیا کہ عثمان بزدار کو ہٹایا جائے اور پارٹی کے اندر سے بھی آواز اٹھتی رہیں۔۔۔لیکن عمران خان نہ مانے اور حکومت کے لیے نئے حالات مزید خراب ہوتے گئے۔۔۔۔۔! اب الیکشن کا وقت قریب آتا جارہا ہے اور ان کے پاس نئے الیکشن میں کوئی نیا نعرہ بھی نہیں کہ جس کے ذریعہ یہ اگلے پانچ سال کے لیے حکومت اپنی قائم کرسکیں اور دوسرا لگتا اس طرح ہے کہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے دست شفقت اٹھا لیا ہے۔۔۔ اب کیونکہ ملک کے حالات بہت گھمبیر ہو چکے ہیں اور ان کو ٹھیک کرنا اتنا آسان نہیں۔ اس لیے ہمارے ادارے خواہ وہ سیاسی ہوں یا دوسرے تمام کو مل کر بیٹھنا ہوگا اور اس پر سوچنا ہوگا کہ ہمیں آگے چلنا کس طرح ہے اور اس میں سب سے اہم کردار اسٹیبلشمنٹ کا ہوگا کہ اس کو اب دیکھنا پڑے گا کہ ہمیں آگے چلنا کس طرح ہے کہ اگر اسی طرح ایکسپیریمنٹ کرتے رہے تو پھر یہ ہے کہ افغانستان تک ترقی یافتہ ممالک بن جائیں گے

اور شاید آنے والے وقتوں میں صرف ایک ملک رہ جائے جو ترقی پذیر کہلائے اور وہ پاکستان ہو خدا نا کرے ایسا ہو مگر معذرت کے ساتھ حالات کچھ یہ ہی خبر دے رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ ہمیں آگے آگے چلنا کس طرح ہے۔ کہ عمران خان کے اوپر کرپشن کے الزامات بےشک نہ ہوں لیکن لازمی نہیں کہ جو شخص ورلڈ کپ جیت سکتا ہے وہ ملک کو بھی آگے لے کے جا سکتا ہے۔ یہ چیزیں ہمیں دیکھنی پڑے گی اور اسٹیبلشمنٹ کو دیکھنا پڑے گا کہ اس ملک کے لیے کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔ وہ لوگ ہیں جنہیں کرنے کا طریقہ آتا ہے اور کام کرتے بھی ہیں انہیں آگے لے کر آنا ہوگا نہ کہ وہ لوگ جو صرف اور صرف باتیں کرتے رہے اور کام کاوقت م آئے تو کہتے ہیں ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ کام کس طرح ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے ملک کا حامی و ناصر ہو اور ہمارے ملک کو تمام بحرانوں سے نکالے۔۔!
والسلام

/ Published posts: 7

Economist