جھوٹ

In اسلام
May 07, 2022
جھوٹ

جھوٹ

جھوٹ دانستہ نادانستہ طور پر ہماری شخصیت کا حصہ ہوتاہے ، ہم جھوٹ کیوں بولتے ہیں یا جھوٹ ہمارے منہ سے کیوں نکل جاتا ہے آٸیے اس بارے غور کرتے ہیں۔

جھوٹ کیا ہے؟
# مذاق میں غلط بیانی کرنا۔
#اصل بات میں اپنی طرف سے اضافہ یا کمی کرنا۔
#اپنی عزت بڑھانے کے لٸے بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا۔
#بات کو اس طرح گول مول بیان کرنا کہ سننے والا اصل بات نہ سمجھ سکے۔
#بات کو اس طرح توڑ مروڑ کر بیان کرنا کہ سننے والا بات کے اصل مطلب کے بجاۓ وہ سمجھے جو جھوٹا اُسے سمجھانا چاہ رہا ہو۔
#من گھڑت اور بے بنیاد بات کرنا۔
#کسی بارے جان بوجھ کر غلط راۓکااظہار کرنا۔
#استفسار پر دانستہ مبہم راۓیا جواب ۔

جھوٹ کی یہ تمام شکلیں کہیں مذاق کہلاتی ہیں ، کہیں مبالغہ آ راٸی ٗ کہیں الزام تراشی اور کہیں پر بہتان بن جاتی ہیں ٗ جھوٹ کبھی شیخی کی صورت میں ہوتا ہے کبھی یہ خوشامد کے روپ میں ہوتا ہے ٗجھوٹ محبت نفرت انا اور ضد کی علامت بن کر بھی سامنے آتا ہے ، بڑھک ماری جاۓ یا بھرم رکھا جاۓ دراصل سب جھوٹ ہے۔

جھوٹے کا مسٸلہ کیا ہوتا ہے؟

جھوٹے کا ایک ہی مسٸلہ ہوتا ہے وہ یہ کہ جھوٹا سچاٸی تسلیم نہیں کرتا کہیں اپنی کہیں دوسروں کی اور کہیی حالات کی!

جھوٹے کی نفسیات

جھوٹ بولنا انسانی نفسیات کی منفی عادت ہے اس عادت کا براہِ راست تعلق انسان کی ذات اس کی انا اس کی ُ میں ٗ سے جڑا ہوتا ہے۔جھوٹا انسان بنیادی طور پر کمزور ہوتا ہے اسی لۓوہ سچاٸی سے آنکھ چراتا ہے دوسرا یہ کہ جھوٹا مغرور ہوتا ہے کیونکہ وہ سچاٸ تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس کا انکار کرتاہے سب سے بڑھ کر یہ کہ جھوٹا سرکش ہوتا ہے وہ سچاٸی کو اپنی زبان کے بل پر بدلنے کی کوشش کرتا ہے جو کہ یقینناً قدرت کے فیصلوں کے سامنے گستاخی اور بے عقلی ہے یہ سرشت بےلگام ہوکر قدرت کے فیصلوں کے خلاف بغاوت تک بھی پہنچ جاتی ہے۔

جھوٹے کا مزاج

جب ایک انسان جھوٹ بولتا ہے تو اس کے پیچھے اس کی ضرورت نہیں ہوتی عادت ہوتی ہے جو جھوٹ بولنے میں سہولت پاتی ہے اس کےاپنے خیالات اس کی اپنی ذاتی وجوہات ہوتی ہیں اس کی اپنی پسند ناپسند ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ جھوٹ بولتا ہے یہی وجہ ہوتی ہے کہ جھوٹا انسان بڑی مشکل سے کسی کی جاٸز تعریف کرتا ہے کسی کی اچھاٸی کو پہچاننے میں اسے ماننے میں اسے بڑا مسٸلہ ہوتا ہے ۔تنقید نکتہ چینی عیب جوٸی اور سب سے بڑھ کر حسد جھوٹے کے اندرپایا جاتا ہے ۔اس میں خیر کا مادہ بھی اس کے اپنے مفاد سے جڑا ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو بڑا سیانا اور ہوشیار سمجھتا ہے۔

جھوٹوں کی اقسام

کچھ لوگ نہ چاہتے ہوۓ بھی جھوٹ بول جاتے ہیں یعنی ان کا ارادہ جھوٹ بولنے کا نہیں ہوتا لیکن وقتی صورتحال سے مغلوب ہوکر ان کے منہ سے جھوٹ پھسل جاتا ہے لیکن موقع پرستی کی اس کیفیت میں صادر ہوجانے والا جھوٹ ان کے لۓ قلبی بے اطمینانی کا باعث بنتا ہے انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ آٸندہ اسے نہ دہرانے کا عزم کرتے ہیں اب انسان ہونے کے ناطے یہ اپنے ارادے پر قاٸم نہ رہ سکیں تو یہ ایک مختلف بات ہے لیکن یہ جھوٹ بول کر خوش نہیں ہوتے جھوٹ بولنا ان کے لٸے پریشان کن ہوتا ہے۔

جھوٹوں کی دوسری قسم وہ ہے جو موقع پرستی کے لحاظ سے جھوٹ بولنا جاٸز تصور کرتے ہیں اور جب یہ اسے غلط ہی نہیں سمجھتے تو اسے چھوڑنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پہلے اس قسم کے لوگ جھوٹ بولتے ہیں بعد ازاں جھوٹ خود عادت کے موافق حسب موقع ان کی زبان سے جاری ہونے لگتا ہے کیونکہ ان کے ذہنوں نے کُلیہ طے کرلیا ہوتا ہے لہذا بعد میں یہ کلیہ خودکار طریقے سے لاگو ہونے لگتا ہے اس پر نہ انھیں خوف ہوتا ہے نہ شرمندگی!

تیسری قسم سراسر جھوٹے لوگوں کی ہوتی ہے یہ اس روانی سے جھوٹ بولتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کی بحث ہی سے آزاد ہو جاتے ہیں یہ مخاطب اور ماحول کی مناسبت سے اس طرح لبادہ اوڑھتے ہیں کہ ان کی اصل کی شناخت ممکن نہیں ہو پاتی۔یہ طبقہ بے وجہ جھوٹ بولتا ہے ۔

جھوٹ بولنے کے انداز

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جھوٹ صرف زبان سے بولا جاتا ہے جبکہ ہر وہ عمل جھوٹ کے زمرے میں داخل ہے جس کے ذریعے کسی بات کے حقیقی تاثر کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاۓ یعنی بعض اوقات جھوٹ روٸیے اور لہجے سے بھی بولا جاتا ہے ایسی صورت میں اصل بات کو انداز اور آواز کے زور پر منفی تاثر سے بھر دیا جاتا ہے اور ایسا عام طور پر طنز تنگ نظری تعصب اور تنقید کی شکل میں ہوتا ہے۔

جھوٹ کی پہچان یا پکڑ اور فیصلہ کون کرے؟

اس بحث میں یہ نکتہ اٹھتا ہے کہ جھوٹ کی شناخت کیسے کُھلتی ہے؟بے شک کبھی کبھی جھوٹ سامنے آجاتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ بظاہر جھوٹے کا کاروبار رواں رہتا ہے.دراصل جھوٹ چونکہ ایک روحانی عارضہ ہے اس وجہ سے اس کا راز خود جھوٹے ہی کو معلوم ہوتا ہے چہ جاٸیکہ کسی پر جھوٹے کی مہر نہ لگ چکی ہو۔ جھوٹ نیت یعنی دل سے شروع ہوتا ہے اور زبان پر آکر مکمل ہوتا ہے۔

جھوٹ براٸی کیوں ہے اور اس سے گریز کیوں کیا جائے؟

جھوٹ بولنا ایک روحانی بیماری ہے یہ انسانی نفسیات کو بگاڑتی ہے جب یہ کسی مزاج کا حصہ بن جاتی ہے تو اس کی شخصیت اور ماحول دونوں ہی کو خراب کرتی ہے۔جھوٹ مکمل طور پر انسان کا ذاتی فعل اور اس کی خود اختیاری کا شاخسانہ ہوتا ہے لِہٰذا ذاتی طور پر ہمیں یہ بات سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان اصل میں دخل دینے اور اسے بدلنے کا قطعی مجاز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے کا مقصد سواۓدھوکہ دہی کے کچھ اور ممکن نہیں۔