پیمانے میں آ کر

In ادب
May 30, 2022
پیمانے میں آ کر

کبھی جھانکو صنم خانے میں آ کر
رہو کُچھ دِن تو وِیرانے میں آ کر

وہی خالق نُمایاں جا بجا ہے
کُھلا ہے مُجھ پہ بُت خانے میں آ کر

اِرادہ تو نہِیں تھا میرا لیکن
بہایا خُوں کِسی طعنے میں آ کر

پڑھو چہروں پہ غم کی داستانیں
کچہری میں، کبھی تھانے میں آ کر

جُدا ماں باپ سے اب ہو چلا ہوں
فقط بِیوی کے بہکانے میں آ کر

بہُت اچھے تھے جب تک ہوش نا تھا
لُٹایا خُود کو فرزانے میں آ کر

اب اِس کے ہونٹ چُومُوں؟ یا نہ چُومُوں؟
یہ بیٹھا کون پیمانے میں آ کر؟

وہ میری مان لیتا کیا بُرا تھا؟
گنوایا وقت سمجھانے میں آ کر

کہ جِس کِردار کی تھی پیاس حسرتؔ
مِلا عصمتؔ کے افسانے میں آ کر

رشِید حسرتؔ