کیا ہماری ریاست ہماری ماں جیسی ہے

کیا ہماری ریاست ہماری ماں جیسی ہے

عنوان: ریاست ماں جیسی ہوتی ہے
دنیا میں جہاں پر جمہوریت ہے وہاں ریاست کی تعریف اسطرح کی جاتی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کی ماں ہوتی ہے یعنی آگر کسی شہری( بچے ) کے والدین فوت ہوجائے تو ریاست اس کی کفالت، نشونما،علاج معالجہ اور بہتر تعلیم وتربیت کا بندوبست کرےگی اسی طرح ریاست اس کی جان و مال کی حفاظت ،اور بہتر روزگار کا ضامن ہوگی ۔

لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں جمہوریت تو ہے اور شہریوں کے تحفظ اور فلاح کے قوانین موجود ہیں لیکن ریاست اور اس کے ادارے اس پرعمل کرنے سے ہچکچاتے ہیں جس کی ایک بڑی وجہ ملک میں بار بار مارشلاوں کا نفاذ رہا ہے پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ریاست کے نظم و انتظام کو اپنے منشا کے مطابق چلائیں اور اس میں جو بھی روکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور ملک کو اس کے حقیقی روح کے مطابق ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ ادارے اس کا راستہ روکنے کے لیے وہ تمام تر حربے استعمال کرتے ہیں جس سے وہ اس روکاوٹ کو ہٹاسکیں۔محترمہ فاطمہ جناح کو اس لیے غدار کہا گیا کیونکہ وہ ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑ رہی تھی اسطرح پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اسلیئے ایک جھوٹے مقدمے میں سزا دی گئی کہ وہ چاہتے تھے کہ اختیارات سول نمائندوں کے پاس ہوں اور عوام کے منتخب نمائندے ہی ملک مستقبل کے فیصلے کر سکیں ۔سیاست دانوں کے علاوہ عدلیہ میں بھی ان لوگوں( ججوں ) کو گڈے لائن لگایا گیا جنھوں نے پاکستان کے طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مرضی کے خلاف آئین و قانون کے مطابق فیصلے دینے کی کوشش کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اسکے خاندان کو اسلیئے آمدن سے زائد اثاثوں کے ایک بے بنیادکیس میں خوب رگڑہ لگایا کیونکہ اس نے فیض آباد درنہ کیس میں آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کیا۔اسی طرح صحافت کے میدان میں بھی جن لوگوں نے اسٹیبلشمنٹ کے مرضی کے خلاف آزادانہ طورپر عوام کو اصل حقائق بتانے کی کوشش کی تو ان کو بھی سبق سکھانے کی کوشش کی گئی ۔اپریل 2014 میں سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کو کراچی میں موٹرسائیکل سواروں نے گولیوں سے چھلنی کر دیا لیکن ریاست آج تک اس کا کچھ پتہ نہ لگا سکی ۔آگست 2018 میں معروف صحافی اور بلاگر مدثر نارو کو لاہور سے اٹھایا گیا ۔

اور آج تک ریاستی ادارے اس کا سراغ نہیں لگا سکے اور اس کی بوڑھی ماں اور 4 سالہ بچہ ہر تاریخ کو پچھلے چار سالوں سے اسی امید سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں آتی ہیں کہ شاید مدثر نارو کا کچھ پتہ چل سکے لیکن آج تک ریاست ان کو انصاف نہ دلاسکی ۔جولائی 2020 میں سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو پاکستان کے کیپیٹل میں کیمروں کے سامنے دن دیہاڑے اغوا کیا گیا لیکن آج تک ریاست ان کو انصاف نہ دلا سکی ۔اپریل 2021میں سینئر صحافی اور سابق چئرمین پیمرا ابصار عالم پاکستان کے دارلحکومت میں گولی ماری گئی لیکن آج تک گناہ گاروں کو کوئی سزا نہ مل سکی ۔اسی طرح جون 2021 میں ایک اور صحافی اسد طور کو ان کے گھر میں گھس کر مارا اور پیٹا گیا لیکن آج تک اس کو کوئی انصاف نہ مل سکا ۔2017 میں پارلیمنٹ کے کمیٹی نے بلوچستان میں تعنیات سیکیورٹی اداروں کے افسران کو بلایا اور پوچھا کہ گزشتہ دو سالوں میں کتنی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں تو انھوں نے کہا کہ 51 مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں جب کمیٹی نے پوچھا کہ ان 51 لاشوں کے ملنے پر کسی کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج کرائی ہے تو ان افسران نے جواب دیا کہ لواحقین ایف آئی آر نہیں درج کرانا چاہتے تھے ۔پھرکمیٹی نے پوچھا کہ ریاست جو کے ماں جیسی ہوتی ہے اس ماں ( ریاست ) نے اپنے 51 بچوں کے مسخ شدہ لاشیں ملنے پر کوئی ایف آئی آر درج کرائی ہے، تو ان افسران نے جواب دیا کہ نہیں ۔یہ ہے ہماری ریاست کا کردار، مختصر یہ کہ کیا ہماری ریاست ہماری ماں جیسی ہے؟